Maktaba Wahhabi

146 - 704
کاروبارِ تجارت: اہلِ مکہ کے جو حالات اُوپر بیان کیے جاچکے ہیں ، ان سے ہم نے یہ بات جان لی ہے کہ ان کی مالی قوت کا بنیادی سبب قبائلِ عرب، ملکِ شام، یمن، حیرہ ، فارس، حبشہ اور دیگر علاقوں کے رہنے والوں کے ساتھ عہدِ قدیم سے تجارت کرنا تھا۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پیشہ کو اختیار کیا۔ چنانچہ بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کا سفر کیا، تاکہ تجارت کے اَسرار ورموز کا علم حاصل کریں، اور یہ بھی ثابت ہوچکا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہوکرتجارت کرتے تھے، آپ کے شریک عبداللہ بن سائب تھے۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کی ہے کہ مجھ سے میرے آقا عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ میں جاہلیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شریک تھا۔ اور بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب میں مدینہ آیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تم میرے شریکِ تجارت تھے اور بہت اچھے شریک تھے، کبھی جھگڑتے نہیں تھے، اور صاف ستھرا معاملہ کرتے تھے۔ [1] اور اب عنقریب یہ ذکر ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کا مالِ تجارت لے کر ملک شام گئے اور جب سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی ہوگئی جو مالدار تھیں تو ان کے مال کے ذریعہ کاروبار کرنے لگے، اور اپنی تنخواہ اور تجارت میں نفع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاگزر اوقات ہونے لگا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت آپ کو ملی تھی جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکرکرکے فرمایاہے: ((وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ)) [الضحیٰ:8] ’’اور اس نے آپ کو فقیر ومحتاج پایا تو آپ کو مال دار بنا دیا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یتیمی اور محتاجی کے بعد مال دار بنادیا۔ سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کا مال لے کر تجارت کے لیے دوبارہ ملکِ شام کا سفر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب پچیس سال کے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب نے کہا: میرے بھتیجے! میرے پاس مال ودولت نہیں، اور ہم سب پر مشکل وقت آپڑا ہے، اور یہ تمہاری قوم کا قافلہ تجارت کے لیے نکلنے والا ہے، اور خدیجہ بنت خویلد تمہاری قوم کے لوگوں کو اپنا مال دے کر بھیجا کرتی ہے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ تم اس کے پاس جاتے اور اپنے آپ کو پیش کرتے۔ میرا خیال ہے کہ وہ تمہاری طرف سبقت کرے گی۔ خدیجہ رضی اللہ عنھا کو چچا بھتیجا کی اس بات کی خبر ہوئی ،انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا، اور کہا : میں آپ کو اس سے دوگنی تنخواہ دوں گی، جو کسی دوسرے کو دیتی رہی ہوں۔ ابو طالب نے کہا: میرے بھتیجے! یہ روزی ہے جسے اللہ نے تمہارے لیے بھیج دی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب خدیجہ رضی اللہ عنھا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صدق گوئی، امانت اور اخلاقِ حسنہ کی باتیں معلوم ہوئیں، تو انہوں نے خود آپ کو بلا بھیجا،اور آپ سے طلب کیا کہ ان کا مالِ تجارت لے کر شام جائیں، اوروہ آپ کو اس سے اچھی اجرت دیں گی جو دیگر تاجروں کو دیا کرتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات منظور کرلی۔ خدیجہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter