Maktaba Wahhabi

659 - 704
پاس جا رہے ہو، جب اُن کے پاس پہنچو تو پہلے انہیں دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اگر وہ لوگ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو اُن سے کہو کہ اللہ نے اُن پر زکاۃ فرض کی ہے جو اُن کے مالداروں سے لی جائے گی اور اُن کے غریبوں میں تقسیم کر دی جائے گی۔ اور جب وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو اُن کے سب سے اچھے اموال ہر گز نہ لو، اور مظلوم کی دعا سے بچو، اس لیے کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔ [1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل کو یمن بھجتے وقت الوداع کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے کہا: اب وہ دوبارہ آپ کو نہیں دیکھ پائیں گے۔ عاصم بن حمید السکونی رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل کو یمن بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کو وصیت کرتے ہوئے اُن کے ساتھ باہر نکل گئے، معاذ سواری پر تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی سواری کے ساتھ چل رہے تھے۔جب وصیت سے فارغ ہوئے تو فرمایا: اے معاذ! شاید اِس سال کے بعد تم مجھ سے مل نہ سکو گے، اور شاید تم میری مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزروگے۔ یہ سن کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق کو سوچ کر معاذ رضی اللہ عنہ بِلک بِلک کر رونے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا رونا دیکھ کر فرمایا: اے معاذ !نہ رو، رونا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ [2] خالدبن ولید رضی اللہ عنہ نجران میں: بیہقی نے ابن اسحاق سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ماہِ ربیع الثانی یا جمادی الاولیٰ سن 10ہجری میں نجران کے بنی حارث بن کعب کے پاس بھیجا، اور حکم دیا کہ وہ قتال کرنے سے پہلے انہیں تین بار اسلام کی دعوت دیں، اگر قبول کرلیں تو یہی مطلوب ہے، ورنہ پھر اُن سے قتال کریں۔ جب خالد وہاں پہنچے تو انہوں نے ہر چہار جانب سواروں کو بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں اور کہیں: لوگو! اسلام لے آؤ، سلامتی پاؤ گے۔ اس اعلان کو سنتے ہی لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے، اور خالد رضی اللہ عنہ انہیں اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی روشنی میں اسلام کی تعلیم دینے لگے، انہوں نے یہ تفصیلات لکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ قاصد بھیج دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے خط کے جواب میں لکھا کہ وہ انہیں خوشخبری دیں اور ڈرائیں اور اپنی دعوت میں ان کی طرف پیش قدمی کرتے رہیں، اور کوشش کریں کہ اُن لوگوں کے ساتھ اُن کے تعلقات بڑھتے رہیں۔ کچھ دنوں کے بعد خالد رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو اُن کے ساتھ بنی حارث کا ایک وفد بھی آپ کے پاس آیا، اور اپنے اسلام لانے کا اعلان کیا، اور اللہ کا شکر ادا کیا جس نے انہیں اپنے رسول کے ذریعہ اسلام جیسی نعمت سے نوازا۔ یہ وفد اَواخرِ شوال یا اوائلِ ذی القعدۃ میں لوٹ کر اپنی قوم کے پاس آگیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر و بن حزم کو اُن کے پاس بھیجا تاکہ انہیں قرآن وسنت کی روشنی میں دینِ اسلام کی تعلیم دیں، اور ان کی زکاۃ وصول کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو ایک مکتوب بھی دیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عہد وذمہ اور دیگر اوامر لکھ دیے تھے۔ امام بیہقی نے اپنی
Flag Counter