Maktaba Wahhabi

312 - 704
یہود اور مشرکین کا نفاق یہودکے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد مدنی سوسائٹی یکسر بدل جائے گی، اسلام اس کی گہرائیوں تک اُتر جائے گا، اور قبائلِ اوس وخزرج (سوائے چند بدنصیبوں کے) اسلام کے تابع فرمان ہوجائیں گے، اور ایک مضبوط اور متحد امت بن کر ظاہر ہوں گے، اور یہ کہ یہود کی حیثیت وہاں کی زندگی میں ثانوی ہو جائے گی۔ چونکہ اتنے بڑے انقلاب کا وہ پہلے سے سوچ بھی نہیں سکتے تھے، اس لیے ابتدائے ہجرتِ نبوی میں ان کا موقف مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے حق میں تقریباً غیر جانب دارا نہ تھا، اگرچہ یہ بات ان کے بارے میں سب کو معلوم تھی کہ ان کا باطن خبیث ہوتا ہے اور انہوں نے ہردور میں انبیاء ورسل اور آسمانی مذاہب سے کھلی اور پوشیدہ دشمنی رکھی ہے، اور یہ بات حُیَیْ بن اخطب کے قول سے بالکل ظاہر ہوگئی، جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرنے کے بعد اپنے بھائی کے استفسار کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا: ہاں، یہ وہی نبی ہے جس کا ذکر تورات میں ہے، لیکن میں جب تک زندہ رہوں گا، اللہ کی قسم! اس سے دشمنی رکھوں گا۔ [1] جب یہود نے دیکھا کہ اسلام مدنی سوسائٹی کا دینِ غالب ہوگیا ہے، اور مسلمانوں کی عزت اور شان وشوکت دن بدن بڑھتی جارہی ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی اسٹیٹ کی بنیاد رکھنے میں اللہ کی توفیق سے کامیاب ہوگئے ہیں، اور مہاجرین و انصار سے بنی اسلامی فوج مدینہ، مکہ اور حجاز کے دیگر علاقوں میں کفر اور شرک کے وجود کے لیے خطرہ بن گئی ہے، تو ان کا موقف اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں یکسر بدل گیا، اور بسا اوقات کھل کر اور کبھی بطور نفاق دشمنی کرنے لگے۔ اور ان کی عداوت اور بغض اورکینہ کو اس بات نے زیادہ ہوا دی کہ ان کے بعض بڑے بڑے علماء اُن سے ٹوٹ کر مسلمانوں کے زُمرے میں داخل ہونے لگے، جیسا کہ ابھی کچھ پہلے ہم نے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے بارے میں جانا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اپنے اسلام کا اعلان کردیا، اور پھر چھپ گئے اور یہود آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ان کے بارے میں پوچھا تو پہلے ان کی خوب تعریف کی اور جب سامنے آکر اپنے اسلام کا اعلان کیا تو فوراً اپنی بات بدل کر کہنے لگے کہ یہ آدمی تو ہم میں سب سے بُرا اور ہمارے سب سے بُرے آدمی کا بیٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی بغض وکینہ اور اللہ کے دین سے عداوت کی وجہ سے ان کی بصیرت چھین لی، چنانچہ وہ مشرکوں کی بُت پرستی کو مسلمانوں کی عبادت پر ترجیح دینے لگے۔ ابن اسحاق روایت کرتے ہیں کہ قریش نے علمائے یہود سے پوچھا جو مکہ گئے تھے کہ اے یہود! تم پہلے سے اہل کتاب ہو، اور ان باتوں کوخوب جانتے ہو، جن میں ہمارا اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اختلاف ہے، بتاؤ کہ ہمارا دین بہتر ہے یا اس کا دین؟ انہوں نے کہا: تمہارا دین اس کے دین سے بہتر ہے، اورتم زیادہ صحیح
Flag Counter