Maktaba Wahhabi

267 - 704
ہجرتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے بعد مکہ میں باقی ذی الحجہ اور 14 نبوی محرم وصفر کے مہینوں میں اللہ کے حکم کا انتظار کرتے رہے، جب مکہ سے مدینہ کے لیے آپؐ کی روانگی کا وقت قریب آیا تو اللہ نے آپؐ پر یہ آیت نازل فرمائی: ((وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا)) [الإسرائ:80] ’’آپ کہیے کہ اے میرے رب! مجھے عمدہ طریقہ سے (مدینہ)پہنچادے، اور مجھے عمدہ طریقہ سے (مکہ سے) رخصت کردے، اور تو میرے لیے اپنے پاس سے مدد کرنے والی قوت مہیا کردے۔‘‘… اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا کرنے کا الہام کیا تاکہ جلد ہی اللہ تعالیٰ آپ کے لیے مکہ سے نکلنے کے اسباب مہیا کردے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دے دی، جہاں انصار اور دیگر احباب موجود تھے اور آپ کے لیے وہاں ایک گھر اور ایک پناہ گاہ مہیا ہوچکی تھی، اور وہاں کے رہنے والے آپ پر جان چھڑکنے والے بن چکے تھے، اور آپ کے ساتھ مکہ میں صرف وہی لوگ رہ گئے تھے جنہیں آزمائش میں ڈالا گیا اور محبوس کردیا گیا، سوائے علی بن ابو طالب اور ابوبکر بن ابو قحافہ کے ۔ رضی اللہ عنھما ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش: جب مشرکین نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اپنا سامان اپنے ساتھ لے کر مدینہ کے لیے رخصت ہوگئے، اور اپنے ساتھ اپنے اہل وعیال اور اپنا مال لے کر اوس وخزرج والوں کے پاس پہنچ گئے، اور انہو ں نے سمجھ لیا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یارومددگار اور اچھے ساتھی مکہ سے باہر مدینہ میں موجو د ہیں، اور مدینہ اب مسلمانوں کے لیے ایک محفوظ گھر بن گیا ہے، اور اوس وخزرج والے بڑی قوت وعزیمت اور عسکری شان وشوکت والے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کے پاس پہنچنے کا سوچ سوچ کر بہت ہی گھبرانے لگے، اور انہیں یقین ہوچلا کہ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ِ مکہ کے خلاف اعلانِ جنگ کا فیصلہ کرلیاہے۔ تمام اہلِ قریش دار الندوہ میں جمع ہوئے، تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں سنجیدگی کے ساتھ آپس میں رائے مشورہ کریں ۔ اس اجتماع سے کوئی بھی صاحبِ عقل ورائے پیچھے نہیں رہا، اور ان سب کا دوست اور سردار ابلیس اہلِ نجد کے ایک عمردراز بوڑھے کی شکل میں اپنے بدن پر عبا ڈالے شریک ہوا۔ اس اجتماع میں ہر ایک نے اپنی رائے دی، اور ابلیس ہر رائے کی تردید کرتا رہا، یہاں تک کہ ابوجہل نے کہا: میرے ذہن میں ایک ایسی رائے آئی ہے جو تم میں سے کسی کے ذہن میں نہیں آئی۔ انہوں نے پوچھا: وہ کیا ہے ؟ ابو جہل نے کہا:میری رائے یہ ہے کہ ہم ہر قریشی قبیلہ سے ایک مضبوط قوی اور بہادر نوجوان کو چنیں ، اور ان سب کوایک ایک تیز تلوار دیں ، اور سب مل کر یکبارگی محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )پر وار کرکے اس کا قصہ تمام کردیں، تاکہ اس کا خون تمام قبائل کے درمیان متفرق ہوجائے ،
Flag Counter