ابی سلمہ کے اپنے میت اپنے میت کا نام لینا چاہیے۔ مثلاًمیت کا نام عبد اللہ ہے تو یوں کہنا چاہیے۔ اللھم اغفر لعبد اللہ وارفع درجتہ الخ موت کے صدمہ کے وقت صبر کرنا چاہیے، اور یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیر مناھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ یہ دعا پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بہتر بدلہ دیتا ہے۔(مسلم) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہے جب (میرے شوہر اوّل) ابو سلمہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی تو میں نے اپنے جی میں کہا کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہا سے بہتر کون مسلمان ہو گا، یہ اس خاندان کے پہلے شخص تھے، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پہلے ہجرت کی تھی، پھر میں نے اس دعا کو پڑھاتو اللہ تعالیٰ نے ا ن کے بدلہ میں ان سے بہتر شخص (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھ کو عطا فرمایا(بخاری ومسلم) جو لوگ مصیبت کے وقت صبر کرتے اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے ہیں، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے۔ {وبشرالصبرین الذین اذا صابتھم ممصیبۃ قالو اناللہ وانا الیہ راجعون اولئک علیھم صلوٰت من ربھم ورحمہ واولئک ھم المھتدون} خوشخبری دید ے ان صبر کرنے والوں کو کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون یہی وہ لوگ ہیں ،جن پر ان کے رب کے طرف سے بخششیں اور رحمتیں ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو راہ پائے ہوئے ہیں۔ میت پر نوحہ کرنا اور زور سے رونا بڑا گناہ ہے۔ آہستہ آہستہ رونا اور آنسو بہانا منع نہیں، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت والوں کے نوحہ کرنے اور زور سے رونے کی وجہ سے میت پر عذاب کیا جاتا ہے۔(بخاری ومسلم) |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |