لوگ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو مجھے پیش نہ کرو۔
صحیح بخاری میں یہ اضافہ ہے ؛ عروہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ثویبہ کو ابو لہب نے آزاد کردیا تھا اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔ جب ابو لہب مرا تو اس کے بعض رشتہ داروں نے اسے خواب میں بُری حالت میں دیکھا۔ اُس سے پوچھا ، تمہارا انجام کیسا ہوا ہے؟ ابو لہب نے کہا: تم سے جدا ہونے کے بعد میں نے کوئی اچھائی نہیں دیکھی، سوائے اس کے کہ ثویبہ کو میرے آزاد کرنے کے بدلے مجھے یہاں سے پانی پلایا جاتا ہے۔ پھر اس نے انگوٹھے اور اس کے قریب کی انگلی کے درمیان ایک سوراخ کی طرف اشارہ کیا۔ [1]
سہیلی وغیرہ نے لکھا ہے کہ یہ خواب ابو لہب کی وفات کے ایک سال بعد اس کے بھائی عباس رضی اللہ عنہ نے دیکھا تھا۔ [2]
3۔ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنھا :
دودھ پلانے والی عورتیں مکہ کے گرد ونواح سے مناسب اوقات میں ایسے دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ آتی تھیں جن کے والدین سے انہیں زیادہ اجرت کی توقع ہوتی تھی، کچھ قبائل اور گھرانے دودھ کی کثرت، آب وہوا کی بہتری، اور فصاحت وبلاغت میں مشہور تھے۔انہی میں سے قبیلۂ ہوازن میں بنی سعد کے گھرانے کا شمار ہوتا تھا جو بالخصوص اپنی زبان کی فصاحت میں مشہور تھا۔
حلیمہ سعدیہ دیگر عورتوں کے ساتھ ایک دودھ پینے والے بچے کی تلاش میں آئیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یتیم ہونے کے سبب ان کے سوا کسی دوسرے بچے کو تلاش کرنے لگیں، اس لیے کہ دودھ پلانے والی عورتیں بچوں کے والدین سے اچھی اجرت کی امید لے کر آتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیمہ کے پاس دودھ پینے کے واقعہ کو بیان کرنے کے لیے میں یہاں سیّدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔ محدثین کی ایک جماعت نے ان سے روایت کی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو حلیمہ سعدیہ بنی سعد کی دیگر عورتوں کے ساتھ دودھ پینے والے بچہ کی تلاش میں مکہ آئیں۔
حلیمہ کہتی ہیں : میں اپنی ایک سفید مائل بسرخی گدھی پر سوار ہوکر دیگر عورتوں اور اپنے شوہر حارث بن عبدالعزّیٰ کے ساتھ نکلی جو قبیلۂ بنی سعد ہی کے ایک فرد تھے ۔ میری سواری کے گھٹنے آپس میں ٹکرا ٹکرا کر زخمی ہوگئے تھے۔ میرے ساتھ ایک بوڑھی اونٹنی بھی تھی جو اللہ کی قسم! ایک قطرہ بھی دودھ نہیں دیتی تھی۔ اور زمانہ قحط سالی کا تھا، لوگ بھوک پیاس سے پریشان تھے، اور میرے ساتھ میرا ایک بیٹا تھا، اللہ کی قسم! وہ رات بھر نہیں سوتا تھا، او رمیرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس سے میں اُسے بہلاتی، ہم تو صرف بارش کا انتظار کررہے تھے، ہمارے پاس کچھ بکریاں تھیں ، جن سے ہم دودھ کی امید لگائے ہوئے تھے۔
جب ہم مکہ پہنچے تو ہم میں سے ہر ایک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، لیکن انہیں لینا پسند نہیں کیا۔ ہم سب کہتے تھے :یہ تو یتیم ہے ، دودھ پلانے والی عورت کا خیال تو لڑکے کا باپ کرتا ہے، اس کی ماںیا اس کے چچا یا اس کے دادا ہمیں کیا دیں
|