Maktaba Wahhabi

477 - 704
اس کے بعد عصر کی نماز کا وقت آگیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے آپؐ کے حکم سے ہتھیار لے لیے، اور دو صفوں میں کھڑے ہوگئے۔ پھر راوی نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ کس طرح صلاۃ الخوف پڑھی، پھر واپس آگئے، راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاۃ الخوف دوبار پڑھی، ایک بار عُسفان میں اور دوسری بار بنی سلیم کے علاقے میں۔ [1] غزوۂ ذی القرد(غزوۂ غابہ) : اس غزوہ کا نام غزوۂ ذی القرد اس کنویں کی نسبت سے پڑگیا جو غطفان کے علاقے سے قریب مدینہ سے چند میل کی دوری پر ہے۔اور اسے غزوۂ غابہ اس جگہ کی نسبت سے کہا جاتا ہے جو مدینہ کے قریب شام کے راستے میں ہے۔ یہ غزوہ ماہ ربیع الثانی سن 6 ہجری میں واقع ہوا تھا، اور اس کا سبب یہ تھا کہ قبیلۂ غطفان کے سردار عُیینہ بن حصن فزاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھ دینے والی اونٹنیوں پر حملہ کردیا تھا، جو بنی غفار کے ایک آدمی کی نگرانی میں مقامِ غابہ میں چر رہی تھیں اور ان کی تعداد بیس تھی، اور اس چرواہے کے ساتھ اس کی بیوی بھی تھی، عُیینہ اور اس کے ساتھیوں نے اس چرواہے کو قتل کردیا، اس کی بیوی کو قید کرلیا، اور اونٹنیوں کو ہانک کر لے گئے۔ اور پہلاآدمی جسے عُیینہ اور اس کے ساتھیوں کی خبر ہوئی وہ سلمہ بن عمرو بن اکوع اسلمی تھے، جو اپنا تیر کمان لیے غابہ کی طرف جارہے تھے، جب ثنیۃ الوداع کے اوپرپہنچے تو ان کی نظر دشمنوں کے بعض گھوڑوں پر پڑگئی، تو انہوں نے ایک کنارے پر جاکر زور سے آواز لگائی، واصباحاہ! (یعنی دشمن آگئے ہیں) پھر دشمنوں کے پیچھے تیز دوڑنے لگے، یہاں تک کہ ان کے پاس پہنچ گئے اور ان پر تیر چلانے لگے، جب گھوڑ سوار ان کی طرف رخ کرتے تو وہ بھاگ پڑتے، اور پھر دوبارہ ان کا پیچھا کرتے اور ان پر تیر چلاتے، اسی طرح انہیں مشغول رکھا، یہاں تک کہ اُن کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوگئی تو آپ نے صحابہ کرام کو نکلنے کے لیے کہا چنانچہ آپؐ کے صحابہ کرام او رگھوڑ سوار جمع ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا امیر سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو بنایا، اور ان سے کہا: تم لوگ دشمنوں کی تلاش میں فوراً نکل جاؤ، اور میں بعد میں مزید مجاہدین کے ساتھ تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا، سعید بن زید رضی اللہ عنہ گھوڑ سواروں کے ساتھ فوراً نکل گئے، اور حملہ آوروں کو جالیا، اور انہیں شکست دے کر اونٹنیوں کو حاصل کرلیا، نیز ان کے تیس کمبل ان کے ہاتھ لگے، اور مسلمانوں کا صرف ایک آدمی شہید ہوا، اور حملہ آوروں نے بھاگ کر بنی غطفان کے پاس پناہ لے لی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلنے کے لیے فوراً تیار ہوگئے اور مدینہ میں اپنا نائب ابن امّ مکتوم رضی اللہ عنہ کو مقرر کرکے چل پڑے، یہاں تک کہ خیبر کی سمت میں مقام قرد تک پہنچ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سفر میں پندرہ دن مدینہ منو رہ سے باہر رہے۔ کہا جاتا ہے کہ غفاری چرواہے کی بیوی موقع پاکر ایک اونٹنی پر سوار ہوئی اور تیزی کے ساتھ ان کے پاس سے بھاگ نکلی، دشمنوں نے اس کا پیچھا کیا، لیکن اسے نہیں پکڑ سکے، اور اس نے ان سے نجات پالی۔ [2]
Flag Counter