Maktaba Wahhabi

641 - 704
بالخصوص سر زمینِ مکہ کو جہاں مسلمانوں کا قبلہ خانۂ کعبہ ہے۔ اسی لیے بالآخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ آئندہ مشرکوں کو مکہ میں شرکیہ اعمال اور ننگے ہو کر طواف کی اجازت نہ دی جائے، اور مشرکین کا معاہدہ اُن کے منہ پر مار دیا جائے۔ چنانچہ اِس سال جب حج کا زمانہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حج کا امیر بنا کر بھیجا، اور انہیں حکم دیا کہ وہ مشرکین کی مخالفت کریں (مشرکینِ مکہ مزدلفہ میں ہی رُکے رہتے تھے، عرفہ نہیں جاتے تھے) اور عرفہ میں وقوف کریں اور رات شروع ہونے کے بعد ہی وہاں سے لوٹیں، اور مزدلفہ سے طلوعِ آفتاب سے پہلے روانہ ہوں۔ سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ تین سو اشخاص کے ساتھ ذو القعدہ کے اَواخر میں مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، اور جب مقامِ ’’عَرَج‘‘ میں پہنچے تو صبح کی نماز کے لیے صف بندی کی، جب تکبیر کہنی چاہی تو اپنے پیچھے اونٹنی کے ہنہنانے کی آواز سنی، تکبیر سے رُک گئے اور کہا کہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوان اونٹنی کی آواز ہے۔ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بعد میں حج کا خیال آیا اور چل پڑے۔ بہتر ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھیں۔ لیکن مُڑ کر جو دیکھا تو وہ علی بن اَبی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔ سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اُن سے پوچھا: آپ امیر کی حیثیت سے آئے ہیں یا پیغام رساں ہیں؟ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں صرف پیغام رساں ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا ہے تاکہ لوگوں کے سامنے شرک ومشرکین سے براء ت کا اعلان کروں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مدینہ منورہ سے نکلنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ براء ت نازل ہوئی تھی۔ چنانچہ دونوں اپنی اپنی حیثیتوں میں اعمالِ حج ادا کرنے لگے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اَمیر الحج تھے، اور علی رضی اللہ عنہ سورہ براء ت کی ابتدائی آیتیں پڑھ کر لوگوں کو سناتے تھے، اور چند صحابہ اُن کی مدد کرتے تھے، اُن میں ابوہریرہ اور طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنھما بھی تھے۔ علی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب نے بتایا کہ انہیں چار باتوں کے اعلان کے لیے بھیجا گیا ہے، وہ اعلان کرتے رہے یہاں تک کہ اُن کی آواز بیٹھ گئی: 1: لوگو! جنت میں صرف مسلمان آدمی داخل ہوگا۔ 2 : اِ س سال کے بعد اب کوئی مشرک حج نہیں کرے گا۔ 3: کوئی ننگا خانہ کعبہ کا طواف نہیں کرے گا۔ 4 : جس کسی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ ہے وہ اپنی مدت پوری کرے گا، اور جس کا کوئی معاہدہ نہیں اسے چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے، اس مدت میں جہاں چاہے جائے، مدت گزر جانے کے بعد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں سے بری ہیں۔ چنانچہ اُس سال کے بعد کسی مشرک نے حج نہیں کیا، اور نہ کسی نے ننگے خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ [1] غزواتِ نبوی کے اَغراض وأثرات: مؤرخینِ سیرت ِنبوی نے لکھا ہے کہ غزوئہ تبوک غزواتِ نبوی کی آخری کڑی تھی جن کی تعداد ستائیس ہے، اور اسی غزوہ کے ساتھ فوجی دستوں کا بھیجا جانا بند ہوگیا جن کی تعداد ساٹھ تک پہنچتی ہے۔ مؤرخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اِن غزوات
Flag Counter