Maktaba Wahhabi

593 - 704
صبح کے وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے باہر نکلے، تو دو رکعت ادا کرنے کے بعد صحابہ سے پوچھا: کیا تم لوگوں نے اپنے گھوڑ سوار کو دیکھا ہے؟ صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ! ہم لوگوں نے اسے اب تک نہیں دیکھا ہے۔ یہ سُن کر آپ سیدھے ہوگئے اور نماز پڑھنے لگے، اور بار بار گھاٹی کی طرف دیکھتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر لی اور سلام پھیر دیا۔ پھر فرمایا: لوگو! خوش ہوجاؤ، تمہاراگھوڑ سوار آگیا۔ ہم لوگ گھاٹی میں درختوں کی طرف دیکھنے لگے، اتنے میں اچانک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ انہوں نے بتایا کہ میں چلتا رہا یہاں تک کہ اس گھاٹی کی بلندی پر پہنچ گیا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پہنچنے کا حکم دیاتھا۔ جب صبح ہوئی تو دونوں گھاٹیوں پر گیا،چاروں طرف نظر دوڑائی، لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے پوچھا: کیاتم رات کے وقت نیچے اُترے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں یا رسول اللہ! یا تو نماز پڑھتا رہا، یا قضائے حاجت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے کہا: تمہارے لیے جنت واجب ہوگئی۔ اب اس کے بعد چاہے تم جو عمل کرو۔ [1] اہلِ مکہ کے جاہلی عادات واَطوار: فتحِ مکہ کے بعد وہاں کے آزاد کردہ لوگوں میں موجود جاہلی عادات واَطوار کے منفی اثرات وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہتے تھے، شاید اُن میں سے بہتوں کے دلوں میں ایمان نے ابھی گھر نہیں کیا تھا، انہوں نے اپنے ذہنوں میں موجود جاہلی عادات واَطوار سے اب تک پورے طور سے چھٹکارا نہیں حاصل کیا تھا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مکہ کے آزاد کردہ نو مسلموں نے راستہ میں بیری کا ہرا بھرا ایک عظیم درخت دیکھا جسے لوگ ’’ذات اَنواط‘‘ کہتے تھے، عرب کے لوگ اُس پر اپنے اَسلحے لٹکایا کرتے تھے، وہاں جانور ذبح کیا کرتے تھے اور اُس کے گرد بیٹھتے تھے۔ بعض افرادِ فوج نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمارے لیے بھی آپ ایک’’ذات اَنواط‘‘ بنا دیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ، یہ تو وہی بات ہے جو قومِ موسیٰ نے کہی تھی کہ اے موسیٰ! ہمارے لیے بھی ایک معبود بنا دو جیسے اُن کے بہت سارے معبود ہیں۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم یقینا گزشتہ قوموں کے عادات واَطوار کو اپناؤ گے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کی ہے، اور کہا ہے کہ یہ حسن صحیح ہے۔[2] ثابت قدم رہنے والے صحابہ کرام: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس شوال سوموار کی شام کو حنین پہنچے۔ اُدھر مالک بن عوف نے اپنے ساتھیوں کو پوری طرح جنگ کے لیے تیار کر دیا تھا، اور انہیں یکبارگی حملہ کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ مشرکوں نے اپنی دو صفیں بنائی تھیں تاکہ بڑی تعداد میں نظر آئیں۔
Flag Counter