بغیر کسی دباؤکے اسلام لے آئے۔[1]
مکہ میں ایک آواز:
جب تین راتیں گزرگئیں اور اللہ تعالیٰ نے اہلِ قریش کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اندھا بنا دیا، اور انہیں کوئی خبر نہ ہوئی کہ وہ دونوں کدھر نکل گئے؟تو مکہ میں آسمان وزمین کے درمیان ایک اونچی آواز گونجی جسے اہلِ مکہ سن تو رہے تھے ، لیکن انہیں معلوم نہ تھا کہ آواز دینے والا کون ہے؟ یہ آواز مکہ کے نچلے علاقے سے آرہی تھی کوئی شخص چند اشعار پڑھ رہا تھا، لوگ اس کے پیچھے تھے ، اس کی آواز کو سن رہے تھے ، اور اسے دیکھ نہیں رہے تھے ، پھر وہ آواز دینے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے بارے میں امّ معبد رضی اللہ عنہ کے خیمے میں اُترنے اوروہاں ان کی ایک بکری کو دوہنے اور پھر وہاں سے مدینہ کی طرف روانہ ہوجانے کی خبردیتا ہوا مکہ کے بالائی علاقہ سے باہر نکل گیا۔
جب لوگوں نے اس کی بات سنی اور جان گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ہیں، تو بہت سے مسلمان تیزی کے ساتھ امّ معبد رضی اللہ عنہ کے خیمے کی طرف نکل پڑے اور جلد ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاملے۔
جندب بن ضمرہ کا ہجرت کے لیے نکلنا اور تنعیم میں وفات:
جب جندب بن ضمرہ جندعی کو خبر ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرگئے تو اپنے دل میں سوچا کہ اب مکہ میں رُکے رہنے کے لیے میرے پاس کوئی عذر نہیں رہا، حالانکہ وہ اس وقت کمزور تھے، انہوں نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ وہ انہیں مکہ سے نکال کر تنعیم لے جائیں ، وہاں پہنچنے کے بعد ان کا انتقال ہوگیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں نازل فرمایا:
((وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّـهِ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا)) [النسائ:100]
’’اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کی نیت سے نکلتا ہے، پھر اُس کی موت آجاتی ہے، تو اس کا اجر اللہ کے نزدیک ثابت ہوجاتا ہے، اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا اور نہایت مہربان ہے۔‘‘
جب مکہ میں باقی ماندہ مسلمانوں نے جو سفر کی طاقت رکھتے تھے، یہ بات سنی تو وہ سب کے سب نکل پڑے ۔ ابو سفیان مشرکوں کی ایک جماعت کے ساتھ انہیں گرفتار کرنے کے لیے نکلا، انہیں پکڑ کر واپس لے آیا اور سب کو پابندِ سلاسل کردیا، ان میں سے کئی لوگ اس ابتلاء وآزمائش سے مغلوب ہوگئے۔ [2]
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے:
سیّدناعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے نکل جانے کے بعد تین راتیں وہاں ٹھہرے رہے، آپ نے لوگوں کی ان امانتوں کو واپس کردیاجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرضوں کی ادائیگی کی، پھر
|