غیر مقرب لوگوں کو دینے میں حکمت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس داد و دہش کی حکمت بیان فرمائی تاکہ بعض نہایت مقرّب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دل پر کوئی بُرا اثر نہ پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں ایک کو دیتا ہوں اور ایک کو چھوڑ دیتا ہوں، اور جسے چھوڑ دیتا ہوں وہ میرے نزدیک زیادہ محبوب ہوتا ہے اس سے جس کو میں دیتا ہوں۔ میں کچھ لوگوں کو اس لیے دیتا ہوں کہ اُن کے دل اموالِ غنیمت دیکھ کر حرص وطمع سے بھرے ہوتے ہیں اور کچھ دوسروں کو نظر انداز کر دیتا ہوں اُس دولتِ غِنا وخیر کے سبب جس سے اللہ نے انہیں نوازا ہے۔ [1]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ میں ایک شخص کو دیتا ہوں، حالانکہ کوئی دوسرا شخص میرے نزدیک اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے، اس ڈر سے کہ کہیں اللہ اسے اوندھے منہ آگ میں نہ ڈال دے۔ [2]
تقسیم غنائم کے وقت انصار کی گفتگو:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ انصار چاہتے ہیں دوسروں کی طرح انہیں بھی غنائم میں سے حصہ ملے۔ اور اَنس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ انصار نے کہا:اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مغفرت فرمائے، آپؐ قریش کودیتے ہیں، اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں، حالانکہ ہماری تلواروں سے اب تک قریشیوں کا خون ٹپک رہا ہے۔ [3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں سن کر خطبہ دیا، اللہ کی حمد وثنا بیان کی، پھر فرمایا: اے انصار کے لوگو! کیا تم لوگ گمراہ نہیں تھے تو اللہ نے تمہیں میرے ذریعہ ہدایت دی، کیا تم محتاج وتنگ حال نہیں تھے تو اللہ نے تمہیں میرے ذریعہ مالدار بنا دیا، اور کیا تم متفرق اور بکھرے ہوئے نہیں تھے تو اللہ نے تمہیں میرے ذریعہ جمع اور متحد کر دیا؟ انصار کہتے تھے: اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر سب سے بڑا احسان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ میری بات کا جواب نہیں دو گے؟ تو انصار کہتے: اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر سب سے زیادہ احسان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو: ایسا اور ایسا۔ اور معاملہ اس طرح اور اس طرح تھا۔ آپ ؐنے انصار کے بہت سے تاریخی واقعات کو گِنا دیا۔ عمرو راویٔ حدیث کہتے ہیں کہ وہ ساری باتیں مجھے یاد نہیں رہیں۔ اس حدیث کو اَحمد اور عبدالرزاق نے الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ روایت کی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم یہ پسند نہیں کرو گے کہ لوگ تو اونٹ اور بکریاں لے کر جائیں، اور تم اپنے گھروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس جاؤ۔ انصار کی حیثیت میرے نزدیک رازداروں، خاص لوگوں اور مجھ سے سب سے قریب لوگوں کی ہے۔ اور دوسرے لوگوں کی حیثیت عام سی ہے۔ اگر اللہ نے میرے لیے ہجرت کرنے کا شرف نہ مقدر کیا ہوتا تو میں انصار میں پیدا ہوتا۔ اگر لوگ ایک وادی اور گھاٹی میں چلیں گے تو میں انصار کی گھاٹی اور وادی میں چلوں گا۔ اے انصار کے لوگو! تم میرے بعد دیکھو گے کہ لوگ اپنے آپ کو تم پر ترجیح دیں گے، ایسے وقت میں صبر کرنا یہاں تک کہ تم حوض پر مجھ سے ملو۔ [4]
|