نجد کا علاقہ وسطِ جزیرہ میں ایک اونچا علاقہ ہے، اسی میں صحرائے نفود ہے جو اپنے نرم وگداز ریت کے ٹیلوں کے سبب مشہور ہے جس پر آدمی کا چلنا بہت ہی دشوار ہے۔ اور سرزمینِ حجازنجد وتہامہ کے درمیان ایک اونچے پہاڑی علاقے کا نام ہے۔ اور عروض کاعلاقہ صحراؤں اور وادیوں سے عبارت ہے۔ اور یمن کے علاقے میں ساحل کے مقابل پہاڑوں کی جانب سے وادیاں نکلتی ہیں، اور یہ پہاڑیاں اسی سراۃ کی پہاڑیوں کا ایک حصہ کہلاتی ہیں جو صحرائے دہناء اور صحرائے ربع خالی تک پھیلتی ہوئی چلی گئی ہیں۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جزیرۂ عرب باہر کی طرف سے نہروں اور سمندروں سے گھِرا ہوا ہے، اور اس کا اندرونی علاقہ پہاڑوں ، صحراؤں اور ریگستانوں میں بٹا ہوا ہے۔ اس کی اسی طبیعی اور جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے اس کی پڑوسی قوموں (اہلِ فارس اور اہلِ روم) نے کبھی اس پر قابض ہونے کی بات نہیں سوچی، حالانکہ اُس دور میں اِن دونوں ممالک کا استعماری جذبہ عروج پر تھا۔
(3) اقوامِ عرب کا اہلِ قریش کی فصیح زبان پر اتفاق:
اللہ تعالیٰ کے علمِ غیب میں یہ بات پوشیدہ تھی کہ وہ اپنی آخری کتاب فصیح عربی زبان میں نازل کرے گا، اور یہ کہ جزیرۂ عرب ہی اسلام کا پہلا گہوارہ بنے گا، اوریہاں اسلام نہایت تیزی کے ساتھ پھیلے گا، اور یہ علاقہ عنقریب بُتوں اور بُت پرستوں سے خالی اور صاف کردیا جائے گا۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے عرب اقوام کوایک عربی زبان پر جمع کردیا، باوجود اس کے کہ جزیرۂ عرب میں رہنے والے قبائل اور اس کے جنوب وشمال اور مشرق ومغرب کے درمیان طویل مسافتیں حائل تھیں، اور باوجود ان تمام قبائلی عصبیتوں کے جن میں وہ گھرے ہوئے تھے۔ اس طرح اس جزیرہ میں رہنے والے شہری اور بدوی ،قحطانی اور عدنانی سب کے سب ایک عربی زبان پر جمع ہوگئے۔
یہ متحدہ زبان اگرچہ دورِ جاہلیت میں بعض قبائل میں اپنے مخصوص لہجوں کے ساتھ مشہور ہوئی، لیکن ان کی کوئی بڑی اہمیت نہیں تھی، اس لیے کہ شمال میں رہنے والے عرب قبائل آپس میں ایک فصیح اَدبی لہجہ پر متفق ہوگئے تھے، اور تمام قبائل کے شعراء آپس کی مخالفتوں اور مسافتوں کی دوری کے باوجود اسی شمالی لہجہ کے مطابق شعر کہتے تھے، اور اپنے علاقائی لہجہ سے بلند ہوکر اس عام اَدبی لہجہ کواختیار کرتے تھے۔
یہ فصیح لہجہ فی الواقع قریش کا لہجہ تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل فرمایا، اس لیے کہ وہ قبائل عرب میں سب سے زیادہ فصیح الفاظ کا انتخاب کرتے تھے، جو گفتگو کے وقت زبان پر آسانی کے ساتھ جاری ہوتے تھے، اور سننے میں بھی اچھے لگتے تھے، اورمافی الضمیر کی ادائیگی بھی ان کے ذریعہ واضح ہوتی تھی۔ اور عرب کے لوگ اپنے معاملات میں بالعموم اپنا قضیہ قریش کے سامنے پیش کرتے تھے، اور ان کا فیصلہ مانتے تھے، ان کا احترام کرتے تھے، اور کلمات وتعبیرات کے انتخاب میں ان سے استفاد ہ کرتے تھے۔
اس طرح عرب کے فصحاء شعراء اور اُدباء قریش کی فصیح زبان پر متحد ہوگئے،جس میں قرآن کا نزول ہوا، اور جس زبان
|