Maktaba Wahhabi

532 - 704
آدھا پھل اُن کو دے دیں گے۔ غطفانی جب کچھ دور گئے تو اپنے پیچھے اپنے اموال واہل میں کچھ آواز سنی جس سے اُن کو شبہ ہوا کہ لوگوں نے شاید ان کے آل ودیار پر حملہ کردیا ہے، اسی لیے فوراً ہی واپس ہوگئے، اوراپنے اہلِ وعیال اورمال ومتاع کے پاس پہنچ گئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ خیبر کو ان کے حال پر چھوڑدیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ اُتر کر مسجد بنائی، اور آخری پہر رات میں اس میں نفل نماز ادا کرنے لگے، اُس وقت آپ کی اونٹنی بچھڑ کر ایک طرف چل پڑی، بعض صحابہ نے اُس کا پیچھا کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اُسے چھوڑدو، وہ اللہ کی طرف سے مامور ہے، وہ ایک چٹان پر پہنچ گئی، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کرام وہیں پہنچ گئے۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حباب بن المنذ ر آئے، اورکہا: اے اللہ کے رسول! اِس جگہ قیام کا حکم آپ کو اللہ سے ملا ہے یا آپ کی ذاتی رائے ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میری ذاتی رائے ہے۔ حباب رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ قلعہ، قلعۂ نطاۃ سے بہت ہی قریب ہے، اور خیبر کے تمام فوجی اسی میں ہیں، اوروہ ہمارے حال سے واقف ہیں، اور ہم اُن کے حال سے بالکل ناواقف ہیں، اور اُن کے تیر ہم تک بآسانی پہنچیں گے اور ہمارے تیر اُن تک نہیں پہنچیں گے، اور ہم اُن کے شبخون مارنے سے محفوظ ومامون نہیں رہیں گے۔ نیز یہ کہ یہ جگہ کھجور کے درختوں کے درمیان ہے، اور نشیبی زمین ہے، اور خوشگوار نہیں ہے۔ اس لیے کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ ایسی جگہ پڑاؤ ڈالنے کا ہمیں حکم دیتے جو ان خرابیوں سے پاک ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری رائے بہتر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری جگہ منتقل ہوگئے۔ خیبر میں جنگی مقامات: یہودیوں نے خیبر کے جنگی مقامات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا: علاقۂ نطاۃ، علاقہ شِق، اور علاقۂ کتیبہ، اور ہر علاقے میں کئی کئی قلعہ تھے۔ علاقہ نطاۃ میں تین قلعہ تھے: قلعۂ ناعم، قلعۂ صعب بن معاذ اور قلعۂ زبیر جسے قلعہ قُلّہ بھی کہا جاتا تھا۔ اور علاقۂ شق میں دو قلعے تھے: قلعۂ ابی اور قلعۂ نزار۔اور علاقۂ کتیبہ میں تین قلعے تھے: قلعۂ وطیح، قلعۂ سلالہ اور قلعۂ قموص۔ اہلِ خیبر صبح سویرے جب اپنے کھیتوں کی طرف نکلے تو ان کا سامنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج سے ہوا، دیکھتے ہی وہ مارے ڈر کے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور اپنے قلعوں میں داخل ہوگئے۔ بزدلی اور شدتِ خوف کی وجہ سے اُن میں اسلامی فوج کے مقابلہ کی جرأت نہیں تھی، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن پر حملہ کرنا شروع کردیا۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قلعۂ ناعم پر حملہ کیا جو مرحب نامی یہودی پہلوان کا قلعہ تھا جسے ایک ہزار فوجیوں کے برابر مانا جاتا تھا، قلعہ کا محاصرہ کئی دن تک جاری رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر صدیق کو بھیجاتاکہ اس کے کھولنے کی کوئی جنگی تدبیر کریں، انہوں نے زبردست جنگ کی لیکن قلعہ کو نہ کھول سکے، دوسری صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو بھیجا لیکن وہ بھی قلعہ کا دروازہ نہ کھول سکے۔ سلمہ بن اکوع کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اپنی آنکھ میں تکلیف کے سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر نہیں جاسکے تھے، ایک دن اُن کو شدید احساس ہوا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کیوں نہیں گئے، چنانچہ فوراً روانہ ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے۔ جب وہ رات آئی جس کی صبح کو خیبر فتح کیا گیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل میں جھنڈا ایک
Flag Counter