Maktaba Wahhabi

533 - 704
ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ [1] سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق، جب صحابہ کرام صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو ہر صحابی کی تمنا تھی کہ کاش جھنڈا انہیں دیا جاتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ آپؐ کو بتایا گیا کہ اے اللہ کے رسول! ان کی دونوں آنکھوں میں تکلیف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا بھیجا، اور ان کی آنکھوں میں اپنا لُعابِ دہن لگادیا، اور دعا کی، جس کی برکت سے اُن کی آنکھیں فوراً ٹھیک ہوگئیں جیسے پہلے سے اُن میں کوئی تکلیف ہی نہیں تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا اُن کو دے دیا۔ سیّدناعلی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا میں اُن سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ ہم جیسے ہوجائیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اطمینان کے ساتھ آگے بڑھو یہاں تک کہ اُن کے پاس پہنچ جاؤ، پھر انہیں اسلام کی دعوت دو، اور ان پر واجب اللہ کے حق کی یاد دلاؤ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ ایک آدمی کو ہدایت دے دے، اللہ کی قسم! یہ کام تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ تمہارے پاس بہت سے سرخ اونٹ ہوں۔ [2] علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اس آرڈر کے ساتھ یہودیوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے نکلے، لیکن انہوں نے اس دعوت کا انکار کردیا، اور جنگ کے لیے آمادہ ہوگئے، اور اُن کے بادشاہ مرحب نے مقابلہ کرنے کے لیے چیلنج کردیا، تو عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، ان کی تلوار چھوٹی تھی، انہوں نے مرحب کی پنڈلی پر ضرب لگانی چاہی، لیکن وہ پلٹ کر اُن کے گھٹنے پر جالگی جس کے اثر سے ان کی وفات ہوگئی۔ جب صحابہ کرام مدینہ واپس آئے تو عامر رضی اللہ عنہ کے بھتیجے سلمہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ملول خاطر دیکھ کر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سبب پوچھا، تو انہوں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، لوگوں کا خیال ہے کہ عامر کے اعمالِ صالحہ ضائع ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جھوٹا ہے وہ آدمی جس نے یہ بات کہی ہے، اُن کے لیے تو دوگنا اجر ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں کو اکٹھا کرکے اشارہ کیا، نیز فرمایا: وہ تو اللہ کی راہ میں انتہائی محنت کرنے والے مجاہد تھے، بہت کم عرب اُن کی طرح تلوار لے کر چلے ہوں گے۔ [3] موسیٰ بن عُقبہ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ مرحب قلعۂ خیبر سے ہتھیاروں سے لیس ہوکر رجزیہ اشعار پڑھتا ہوا نکلا اور کہنے لگا: کون مجھ سے مقابلہ کرے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون اس کا مقابلہ کرے گا؟ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں، اے اللہ کے رسول! میں اللہ کی قسم، بچھڑا ہوا اور جذبۂ انتقام سے پھٹا پڑرہاہوں۔ کل ہی ان لوگوں نے میرے بھائی محمود بن سلمہ کو قتل کردیاہے (اِن پر قلعہ کے اوپر سے مرحب نے چکّی کا پتھر گرادیا تھا، جب وہ اہل نطاۃ سے جنگ کے پہلے دن ہی قلعۂ ناعم کے نیچے آرام کررہے تھے، اور اُن کا خیال تھا کہ قلعہ کے اندر کوئی یہودی مقاتل موجود نہیں ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے کہا: اٹھو، اس کا مقابلہ کرو۔ اے اللہ! تو اس کی مدد فرما۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف
Flag Counter