Maktaba Wahhabi

534 - 704
پینترا بدلتے رہے یہاں تک کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس پر ضرب لگائی، اور اس کے دونوں پاؤں کاٹ کر چھوڑ دیا، اور کہا: اب موت کا مزا چکھو، جس طرح میرے بھائی محمود نے چکھا ہے۔ تب اس کے پاس سے علی رضی اللہ عنہ گزرے اور اس کی گردن الگ کردی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو اس کی تلوار، اس کا نیزہ اور اس کی خود دے دی۔ [1] مرحب کے بعد ا س کا بھائی یاسر نکلا، تو اس کے مقابلہ کے لیے زبیر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، اُن کی ماں صفیہ رضی اللہ عنھا نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میرا بیٹا قتل ہوجائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ آپ کا بیٹا ان شاء اللہ اُسے قتل کردے گا۔ چنانچہ زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کردیا۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ مرحب کو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے نہیں۔ روایت میں یوں آیا ہے کہ مرحب نے نکل کر کہا: سارا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں، جب جنگ کی آگ بھڑکتی ہے تو میں ہتھیاروں سے لیس تجربہ کار پہلوان ثابت ہوتا ہوں، توعلی رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے، میں جنگل کا وحشی شیر ہوں، میں دشمن کو اس کا پورا حساب چکاتا ہوں۔ سلمہ کہتے ہیں: پھر انہوں نے مرحب کے سر پر کاری ضرب لگاکر اسے قتل کردیا۔ چنانچہ انہی کے ہاتھوں قلعہ فتح ہوا۔ [2] امام حاکم نے مستدرک میں لکھا ہے کہ بہت سی اسانید کے ذریعہ متواتر خبروں سے ثابت ہے کہ مرحب کو امیر المؤمنین علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا، اورحافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے قول کی تائید کی ہے۔ [3] اور محمد بن اسحاق نے لکھا ہے کہ خیبر میں مرحب یہودی کو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا۔ اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب المختصر میں لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن مرحب کا سلاح ومتاع محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو دیا تھا، انہوں نے یہ بات جامع السیر کے پہلے باب میں بیان کی ہے۔ گویا یہ ان کی تصریح ہے کہ مرحب کو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا، اور اس سلسلہ کی حدیث ثابت اور صحیح ہے جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی تخریج میں ذکر کیا گیا ہے۔ حدیثِ جابر اور حدیثِ سلمہ بن الأکوع کے درمیان توفیق امام واقدی کے قول کے مطابق اس طرح ممکن ہے کہ پہلے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے مرحب کی دونوں پنڈلیوں کو کاٹ کر چھوڑ دیا تاکہ وہ انتہائی اذیت ناک موت مرے۔ اس لیے کہ اُن کا مرحب سے مقابلہ کرنا اور اس سے اپنے بھائی محمود کا انتقام لینے کا شدید ترین جذبہ ثابت ہے، جنہیں مرحب نے اسی طرح کاری ضرب لگاکر مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا، پھر اس کے پاس سے علی رضی اللہ عنہ بن ابو طالب گزرے اور اس کا سر الگ کردیا۔ اور چونکہ جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بھی صحیح ہے، اس لیے دونوں حدیثوں میں توفیق پیدا کرنا ہی صحیح ہے۔ واقدی نے لکھا ہے کہ قلعۂ ناعم کے گرد دس دن تک سخت جنگ ہوتی رہی، اور مجاہدینِ اسلام نے جہادِ اسلامی کا حق ادا کردیا، اور سردارانِ یہود کی ایک جماعت کا صفایا کردیا، بالآخر یہودیوں کی طاقت کمزور پڑگئی، اور اس قلعہ کے پاس مسلمانوں
Flag Counter