معراج جسمانی ہوئی:
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے : صحیح یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوآپ کے جسدِ مبارک کے ساتھ رات کے وقت مسجدِ حرام سے بیت المقدس بُراق پر سوار کرکے لے جایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جبریل علیہ السلام تھے، وہاں آپ اُترے اور ابنیائے کرام کو امام بن کر نماز پڑھائی، اور بُراق کو مسجد کے دروازے کی کنڈی کے ساتھ باندھ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی رات بیت المقدس سے آسمانِ دنیا کی طرف لے جایا گیا۔ [1]
ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات اپنے ربّ کو دیکھا تھا؟ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی صحیح قول یہی ہے کہ آپ نے اپنے ربّ کو دیکھا، اور ان سے یہ بھی صحیح مروی ہے کہ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو اپنے دل کے ذریعہ دیکھا، اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول: {وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰیo عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی}
[النجم:13-14]…’’اور انہوں نے اس فرشتہ کو دوسری بار بھی دیکھا، سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔‘‘…سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔
اور سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث مروی ہے ، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا آپ نے اپنے ربّ کو دیکھا تھا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ایک نور دیکھا، اللہ کو کہاں دیکھ سکتا تھا۔ [2] یعنی میرے اور اللہ تعالیٰ کی رؤیت کے درمیان ایک نور حائل تھا، جیسا کہ ایک دوسری روایت میں آیا ہے ، میں نے ایک نور کو دیکھا ہے۔ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں : عثمان بن سعید دارمی نے صحابہ کا اتفاق نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔
واقعۂ معراج اور کفار ِقریش کا موقف:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں صبح کی تو اس معاملے سے بہت گھبرائے اور سوچنے لگے کہ لوگ یقینا انہیں جھٹلادیں گے، اس لیے سب سے الگ تھلگ مہموم ومغموم بیٹھ گئے۔ آپ کے پاس سے ابوجہل گزرا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا، اور استہزاء آمیز انداز میں کہنے لگا ، کیا کوئی نئی بات ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ، اس نے کہا: وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے گزشتہ رات یہاں سے لے جایا گیا تھا، اس نے کہا: کہاں، آپ نے فرمایا: بیت المقدس، اس نے کہا: پھر صبح کے وقت یہاں پہنچ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔
ابو جہل نے سوچا کہ اگر میں نے اسے ابھی جھٹلادیا تو لوگوں کے آنے کے بعد اپنی بات کا انکار کر بیٹھے گا، اس نے کہا: اگر میں تمہاری قوم کے لوگوں کو بلاؤں تو کیا تم انہیں وہ سب کچھ بتاؤگے جو تم نے مجھے بتایا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ، اس نے کہا: اے بنی کعب بن لؤی کے لوگو! یہاں آؤ، یہ سنتے ہی لوگ اس کے پاس آکر بیٹھ گئے، ابو جہل نے کہا: اپنی قوم کے لوگوں کو بتاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے رات کو یہاں سے دور لے جایا گیا تھا، لوگوں نے پوچھا: کہاں، کہا: بیت المقدس ، لوگوں نے پوچھا: پھر صبح کے وقت تم ہمارے درمیان پہنچ گئے، آپ نے فرمایا: ہاں ، پھر تو کوئی تالی بجانے لگا، اور کسی
|