بیہقی کی ایک روایت میں ہے ،صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ ابو بکر رضی اللہ عنہ مکہ سے نکلے تو میرا بھی ان کے ساتھ نکلنے کا ارادہ تھا، لیکن قریش کے جوانوں نے مجھے روک دیا۔ میں نے وہ رات بے چینی میں گزاری، تو اہلِ قریش نے کہا: اللہ نے اسے تمہارے پاس آنے سے پیٹ کی بیماری میں مشغول کردیا ہے، حالانکہ مجھے کوئی تکلیف نہیں تھی، جب سب لوگ سوگئے تو میں نکل پڑا ،کچھ دور چلنے کے بعد ان کے کچھ لوگوں نے مجھے آلیا، تاکہ مجھے واپس کردیں، میں نے ان سے کہا: اگر میں تمہیں چند اوقیہ سونا دوں تو کیا تم میرا راستہ چھوڑ دوگے اور میرے ساتھ بدعہدی نہیں کروگے؟ تو وہ میری بات مان گئے اور میں ان کے ساتھ مکہ واپس گیا ، اور اپنے گھر کے پاس پہنچ کر اُن سے کہا: تم لوگ دروازہ کی چوکھٹ کے نیچے کھودو، وہاں تمہیں سونے کے اوقیے ملیں گے، اور فلاں عورت کے پاس جاؤ، اس سے دو پوشاک لے لو، پھر وہاں سے نکل کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبا پہنچ گیا ، ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قباسے روانہ نہیں ہوئے تھے، جب آپ نے مجھے دیکھا تو کہا: اے ابویحییٰ! تمہاری بیع بہت نفع بخش رہی، میں نے کہا: یارسول اللہ! مجھ سے پہلے آپ کے پاس کوئی نہیں آیا، یقینا آپ کو اس بات کی خبر جبریل علیہ السلام نے دی ہے۔
ہجرتِ علی بن ابی طالب ( رضی اللہ عنہ ):
ابن اسحاق نے ان صحابہ کرام کے نام ذکر کیے ہیں جو ہجرت کے لیے مکہ سے نکلے تھے، اس کے بعد لکھا ہے: سب سے آخری آدمی جو مدینہ آئے اور جنہیں مکہ میں نہ آزمائش میں ڈالا گیا اور نہ محبوس کیا گیا ، وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے، ایسا اس لیے ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مکہ میں رہنے کو کہا تھا، اور انہیں اپنے بستر پر سوجانے کا حکم دیا تھا، اور اس کے بعد تین دن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود لوگوں کی امانتیں واپس کرتے رہے، پھر وہاں سے نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے۔ [1]
****
|