درمیان واقع ہے، اور جہاں چشمے اور کھجور کے باغات ہیں) وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وادیٔ قریٰ پہنچے جہاں یہود کی آبادی تھی، اور کچھ عرب بھی رہائش پذیر تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جنگ کے لیے تیار کیا اور ان کی صف بندی کردی، پھر یہود کو اسلام کی دعوت دی اور انہیں بتایا کہ اگر وہ مسلمان ہو جائیں گے تو ان کے اموال اور ان کی جانیں محفوظ ہو جائیں گی، اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے حوالے ہوگا۔ انہوں نے انکار کر دیا اور جنگ کے لیے آمادہ ہوگئے۔ اُس دن شام تک جنگ ہوتی رہی، دوسرے دن صبح کے وقت سورج چڑھنے کے بعد یہود نے شکست قبول کر لی۔ جنگ میں گیارہ یہود قتل کیے گئے، اِس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادیٔ قریٰ کو جنگ کے ذریعہ فتح کیا۔ اسی لیے ان یہود کے اموال کو مسلمان مجاہدین کے لیے اموالِ غنیمت قرار دیا۔ مسلمانوں کو وہاں بہت سے اموال ومتاع ہاتھ آئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں چار دن قیام کیا، اموال غنیمت کو صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کر دیا، اور زراعتی زمینوں اور کھجوروں کی کاشت کا کام یہود کے ذمہ لگا دیا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ خیبر اور ان کی زمینوں کے ساتھ معاملہ کیا تھا۔
یہودِ تیماء:
یہودِ تیماء کو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیبر، فَدَک اور وادیٔ قریٰ کے یہود کے ساتھ حسنِ معاملہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے فوراً ہی ادائیگیٔ جزیہ کی شرط پر مصالحت کر لی، اور اپنے شہر میں ہی رہنے لگے، اور ان کی زمینیں انہی کے زِیر تصرف رہیں۔ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو انہوں نے خیبر وفَدَک کے یہود کو تو وہاں سے نکال دیا، اور تیماء اور وادیٔ قریٰ والوں کو ان کے علاقوں سے نہیں نکالا اس لیے کہ یہ دونوں علاقے سر زمینِ شام میں داخل ہیں، اُن کا خیال تھا کہ مدینہ سے وادیٔ قریٰ تک کا علاقہ حجاز ہے، اور اس کے بعد شام کی سرحد شروع ہو جاتی ہے۔
عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اہلِ فَدک وتیماء اور اہلِ خیبر کو جلا وطن کر دیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اواخر صفر یا اوائل ربیع الأول سن سات ہجری میں مدینہ واپس آگئے۔ [1]
فجر کی نماز کے لیے عدمِ بیداری:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ مدینہ واپس آتے ہوئے رات کے وقت ایک جگہ نیند سے مغلوب ہو کر سوگئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو مکلف کیا کہ وہ فجر کی نماز کے لیے سب کو بیدار کریں، لیکن اُن کو نیند آگئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نیند آگئی، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی، نہ بلال رضی اللہ عنہ کی، اور نہ کسی دوسرے صحابی کی، یہاں تک کہ آفتاب نکل آیا، اور فجر کی نماز کا وقت جاتا رہا۔
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر محدثین نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوئہ خیبر سے واپس لوٹے تو رات کے وقت آپ کو نیند آنے لگی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈال دیا، اور بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ وہ پہرہ دیں۔ بلال رضی اللہ عنہ سے جب تک ہو سکا نماز پڑھتے رہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سو گئے، صبح جب قریب ہوئی تو بلال رضی اللہ عنہ فجر کے مطلع کی
|