Maktaba Wahhabi

202 - 704
کر آپؐ پر دوڑ پڑے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر کر کہنے لگے کہ تم ہی ایسا اور ایسا کہتے ہو؟ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ ان کے معبودوں اور ان کے دین کے بارے میں کہا کرتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ہاں ، میں ہی ہوں ، جو ایسا اور ایسا کہتاہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان میں سے ایک آدمی کو (وہ عقبہ بن ابی معیط تھا ) دیکھا کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو لپیٹ کر پکڑ لیا، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ انہیں بچانے لگے، اور رو رو کر کہنے لگے: کیا تم لوگ ایک ایسے آدمی کو قتل کردینا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ پھر وہ سب آپؐ سے الگ ہوگئے۔ [1] قریش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا: امام بخاری ومسلم نے سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قریش کی سازشیں حد سے گزرگئیں اور انہوں نے اسلام لانے میں تاخیر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! تو ان قریشیوں کے خلاف یوسف بن یعقوب علیہما السلام کی سات چیزوں کی مانندسات چیزوں سے میری مدد فرما ۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر انہیں قحط سالی نے آگھیرا، یہاں تک کہ ہر چیز جڑ سے اکھڑگئی اور مشرکینِ قریش مردہ کھانے پر مجبور ہوگئے، اور بھوک کی شدت سے ان کی حالت اتنی دِگرگوں ہوگئی کہ ان کو اپنے اور آسمان کے درمیان ایک دھواں سا نظر آتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس قحط سالی کو دور کردیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: ((إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا ۚ إِنَّكُمْ عَائِدُونَ)) [الدخان:15] ’’ہم چند دنوں کے لیے عذاب ٹال دیں گے، تم اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤگے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ قحط سالی دور ہونے کے بعد وہ سب کے سب اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ گئے اور کفر پر مصر رہے ، یہاں تک کہ جنگ ِبدر کا زمانہ آگیا۔ بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے مُردے، چمڑے اورہڈیاں تک کھائیں۔ اُس وقت ابو سفیان اور کچھ دیگر اہلِ مکہ آپؐ کے پاس آئے اور کہا: اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! تم کہتے ہوکہ تمہیں رحمت بناکر بھیجا گیا ہے، اور تمہاری قوم ہلاک ہورہی ہے ، تم اللہ سے ان کے لیے دعا کرو ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، اوربارش ہوئی، اور ایسی موسلادھار بارش ہوئی کہ لوگ بارش کی کثرت کی شکایت کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: اے اللہ ! ہمارے اِرد گرد بارش ہو ، ہمارے اوپر بارش نہ ہو۔ اس دعا کے بعد فوراً ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے اوپر سے بادل چھٹ گیا، اور مکہ کے گردونواح میں بارش ہونے لگی۔ [2] روم کے اہلِ کتاب کا فارس کے مجوسیوں پر غلبہ اور دعوتِ اسلامیہ پر اس کا خوشگوار اثر: بیہقی نے گزشتہ واقعات کا ذکر کرنے کے بعد روم کے اہلِ کتاب پر فارس کے مجوسیوں کے غلبہ اور پھر فارس پر روم کے غلبہ کا ذکر کیا ہے ، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا مندرجہ ذیل کلام نازل ہوا: الم ﴿1﴾ غُلِبَتِ الرُّومُ ﴿2﴾ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ﴿3﴾ فِي بِضْعِ سِنِينَ ۗ لِلَّـهِ
Flag Counter