Maktaba Wahhabi

203 - 704
الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ ﴿4﴾ بِنَصْرِ اللَّـهِ ۚ يَنصُرُ مَن يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ﴿5 [الروم:1-5] ’’الٓم، اہلِ روم مغلوب ہوگئے، قریب کی سرزمین (شام) میں، اور وہ اپنی مغلوبیت کے بعد عنقریب ہی (اپنے دشمن اہلِ فارس پر) غالب آجائیں گے، چند ہی سالوں میں، پہلے بھی ہر چیز کا اختیار صرف اللہ کو حاصل تھا، اور بعد میں بھی صرف اسی کو حاصل رہے گا، اور اُس دن مومنین خوش ہوجائیں گے، اللہ کی نصرت وتائید پر ، وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے، اور وہ غالب ، بے حد مہربان ہے۔‘‘ اِس کے بعد بیہقی نے لکھا ہے کہ رومیوں کے غلبہ کا مسلمانوں کی نفسیات پر بہت ہی اچھا اثر ہوا اور وہ بہت سے قریشی اور غیر قریشی مشرکین کو اسلام کی حقانیت کے بارے میں قائل کرنے لگے، اور انہیں یقین ہوگیا کہ اسلام ایک دن مشرکین ہی نہیں بلکہ اہلِ کتاب پر بھی اللہ کے حکم سے غالب ہوکر رہے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس دین کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کرے گا۔ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کے مطابق اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مشرکینِ مکہ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ روم کے لوگ اہلِ کتاب ہیں اور ان پر فارس والے غالب آگئے ہیں ، اور تم مسلمان یہ سمجھتے ہو کہ تمہارے نبی پر جو کتاب نازل ہوئی ہے اس کے ذریعہ تم بھی ہم پر غالب آجاؤگے، تو ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم تم پر غالب رہیں گے، جیسا کہ فارس والے اہلِ روم پر غالب آگئے ہیں ۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا: ((الم ﴿1﴾ غُلِبَتِ الرُّومُ)) [الروم:1-2] ’’الٓم، اہلِ روم مغلوب ہوگئے ہیں۔‘‘ ان آیتوں کے نزول کے بعد سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اُبی بن خلف سے بازی لگائی (جُوا کے حرام ہونے سے پہلے) کہ فارس والے پانچ سالوں میں مغلوب ہوکر رہیں گے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ابوبکر! تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس لیے کہ دس سے کم عدد پر بضع (یعنی چند) کا اطلاق ہوتا ہے ، چنانچہ اہلِ روم اس مراہنت(بازی لگانے)کے ساتویں سال کی ابتدا میں اہلِ فارس پر غالب آگئے۔ سفیان کہتے ہیں : میں نے سنا ہے کہ وہ لوگ جنگِ بدر کے دن غالب ہوئے تھے، جیسا کہ ترمذی نے سورۃ الروم کی تفسیر کے ضمن میں اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما ان آیات کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہ مراہنت اہلِ فارس اور اہلِ روم کے بارے میں تھی، اور پہلے فارس والے اہلِ روم پر غالب آئے پھر اہلِ روم کا ان پر غلبہ ہوگیا، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ بدر کے دن مشرکینِ عرب سے مڈبھیڑ ہوئی، اور اُدھر روم وفارس کی مڈبھیڑ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو مشرکینِ عرب پر اور رومی اہلِ کتاب کو فارس کے مجوسیوں پر غلبہ دیا۔ اس لیے مسلمانوں کو دو خوشیاں ملیں ؛ اللہ نے انہیں مشرکین پر غلبہ دیا، اوراہلِ کتاب کو مجوسیوں پر۔ اور یہی مراد ہے اللہ تعالیٰ کے قول: ((وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ))سے۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس نصرت وکامیابی سے اسلام کو بہت ہی قوت ملی۔
Flag Counter