Maktaba Wahhabi

622 - 704
’’اللہ آپ کو معاف کرے، آپ نے انہیں (گھروں میں رہ جانے کی) اجازت کیوں دے دی، تاکہ سچے لوگ آپ کے سامنے ظاہر ہو جاتے، اور جھوٹوں کو بھی آپ جان جاتے۔ ‘‘ اس طرح اکثر منافقین غزوہ میں شریک نہیں ہوئے، اور اُن میں سے جن چند افراد نے شرکت کی تو ان کا مقصد مجاہدین کی ہمت پست کرنا اور فتنہ انگیزی تھی، اور یہ تمنا کہ جب مسلمانوں کو رومیوں کی جانب سے ہلاکت کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ اُن کی ہنسی اُڑائیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن کی اِن ناپاک امیدوں پر پانی پھیر دیا، اور اکثر وبیشتر ایسا ہی ہوا کہ اللہ نے اُن کی امیدوں پر پانی ہی پھیرا لیکن انہوں نے کبھی بھی عبرت حاصل نہیں کی۔ عبداللہ بن اُبی اور اس کا جتھہ: اس مبارک غزوہ میں شرکت سے اللہ نے جن منافقوں کو محروم رکھا، اُن میں عبداللہ بن ابی اور اس کا مخصوص ٹولہ بھی تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تبوک کے لیے روانہ ہوئے تو عبداللہ بن اُبَیّ، اس کا مخصوص ٹولہ اور یہود ومنافقین میں سے اس کے حُلفاء پیچھے رہ گئے۔ ابن اُبی لوگوں سے کہتا پھرتا تھا کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) بنو اصفر (اہل ِروم) سے تنگدستی، شدید گرمی اور بُعدِ مسافت کے باوجود جنگ کرنا چاہتا ہے، رومیوں سے جنگ کرنے کو ایک کھیل سمجھتا ہے۔ یہی حال اس کے دیگر منافق ساتھیوں کا تھا، سبھی مجاہدین کی ہمت پست کرنے اور مدینہ میں جھوٹی باتیں پھیلانے میں لگے رہتے تھے۔ ایک دن ابن ابی یہ کہتے ہوئے سنا گیا: اللہ کی قسم! میں دیکھ رہا ہوں کہ کل جب جنگ ہوگی تو اصحابِ محمد رسّیوں سے باندھ کر گھسیٹے جائیں گے۔ [1] لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن منافقین کی ساری بدخواہیوں کو نیست ونابود کر دیا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابِ کرام سر بلند اور فاتح کی حیثیت سے مدینہ واپس لوٹے۔ سچ ہے اللہ کا قول: ((وَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَـٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ)) [المنافقون:8] ’’ عزت تو صرف اللہ کے لیے ہے، اور اس کے رسول کے لیے ہے، اور مومنوں کے لیے ہے، لیکن منافقین یہ بات نہیں جانتے۔‘‘ سفرِ تبوک: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عازمِ سفر ہوئے تو ثنیۃ الوداع پہاڑ کے پاس اپنی فوج کو اکٹھا کیا جس کی تعداد تیس ہزار تھی، اور مدینہ میں اپنا نائب محمدبن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا، اور اپنے اہل وعیال کی دیکھ بھال کے لیے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو رہنے دیا۔ منافقین نے اپنے خُبثِ باطن کے سبب اس کا بھی غلط فائدہ اٹھاناچاہا اور لوگوں میں پھیلانا شروع کیا کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے علی( رضی اللہ عنہ ) کو سوچ سمجھ کر اس سے نجات پانے کے لیے مدینہ میں چھوڑ دینا چاہا ہے۔ علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو اپنا ہتھیار لے کر نکل پڑے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام جُرُف پر جالیا جو مدینہ سے تین میل کی دُوری پر ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! منافقین کا خیال ہے کہ آپ نے مجھے سوچ سمجھ کر اپنے ساتھ جانے سے روک دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں اپنے اہل وعیال کی دیکھ بھال کے لیے مدینہ میں رہنے دیا ہے۔ اس لیے تم واپس
Flag Counter