نرمی اور آہستگی سے غسل دیں اور میت سے کوئی مکروہ اور معیوب بات معلوم ہو تو اس کو چھپائیں اور کسی سے ظاہر نہ کریں، اور جس مقام میں غسل دیں وہاں پردہ کر لیں،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کی پردو پوشی کرے گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔(بخاری ومسلم)نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے مردوں کی خوبیوں کو بیان کرو، اور ان کی برائیں کے ذکر سے باز ہو۔(ابو داود ،ترمذی) علماء لکھتے ہیں کہ غسل دینے والا جب میت کی کوئی اچھی بات دیکھے، مثلاً اس کے چہرہ کا چمکنا، اور روشن ہونا یا اس سے خوشبو کا معلوم ہونا، تو بہتر ہے کہ اس کو لوگوں سے بیان کرے، اور اگر کوئی بات مکروہ دیکھے، مثلاً اس کے چہرے یا بدن کا سیاہ ہوجانا یا اس کی صورت کا بدل جانا یا اس سے بدبو معلوم ہونا تو اس کو لوگوں سے ظاہر کرنا جائز نہیں۔ فقہائِ حنفیہ لکھتے ہیں کہ میت کو غسل دینے کے واسطے تخت یا چار پائی پر پہلے بائیں کروٹ لٹائیں تاکہ غسل دینے میں دا ہنی طرف سے شروع ہو، پھر غسل دیں ، یہاں تک کہ اوپر سے نیچے تک تمام بدن کا غسل ہو جائے، یہ ایک غسل ہوا ،پھر دا ہنی کروٹ پر لٹا کر اسی طرح غسل دیں، یہ دوسرا غسل ہوا۔ پھر بائیں کروٹ پر لٹا کر اسی طرح غسل دیں۔ یہ تیسرا غسل ہوا۔ فوائد متفرقہ فائدہ: جب میت کو غسل دینے کے واسطے تخت یا چار پائی پر لٹائیں تو کس رخ پر لٹائیں؟ اس بارے میں کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری ، علماء کی رائیں اس بارے میں مختلف ہیں بعض کہتے ہیں جیسے قبر میں لٹایاجاتا ہے، اسی طرح غسل دینے کے وت بھی لٹانا چاہیے اور |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |