خزرج کا سردار تھا۔ عبداللہ نے کہا: ان لوگوں کے پاس جاؤ، جنہوں نے تمہیں بلایا ہے ، ان کے پاس جاکرٹھہرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات چند انصاری صحابہ سے کہی، تو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اس کی طرف سے معذرت پیش کرتے ہوئے کہنے لگے: یار سول اللہ! اللہ نے آپ کوبھیج کر ہم پر احسان کیا ہے، ہم عنقریب ہی اس کے سر پر تاج رکھ کر اسے اپنا بادشاہ بنانے والے تھے۔
موسیٰ بن عقبہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : انصارِ مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بنی عمرو بن عوف والوں کے پاس سے روانہ ہونے سے پہلے جمع ہوچکے تھے، سب آپ کی اونٹنی کے گرد چلنے لگے، ان میں سے ہر ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم وتعظیم کے لیے کوشش کررہا تھا کہ وہ اونٹنی کی لگام تھامے، اور آپؐ جب کسی انصاری کے گھر کے پاس سے گزرتے تووہ آپ کو اپنے گھر کے اندر تشریف لانے کی درخواست کرتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے، اسے چھوڑدو، یہ مامور ہے ، میں وہیں ٹھہروں گا، جہاں مجھے اللہ ٹھہرائے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے گھر میں :
جب اونٹنی ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس پہنچی تو ان کے دروازے پر بیٹھ گئی، آپؐ اُتر کر ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے گھر میں داخل ہوگئے اور وہیں قیام پذیر ہوگئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد اور آپ کے کمرے بنائے گئے ۔ ابن اسحاق کہتے ہیں : اونٹنی جب وہاں بیٹھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے نہیں اُترے، وہ پھر دوبارہ کھڑی ہوگئی اور تھوڑی دور چلی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی تھی، اونٹنی پھر پیچھے کی طرف مُڑی اور جہاں پہلی بار بیٹھی تھی وہیں لوٹ گئی، اور دوبارہ اسی جگہ بیٹھ گئی، پھر اونٹنی نے آواز نکالی اور آرام کے ساتھ وہیں پھیل گئی، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُتر گئے اور ابوایوب خالد بن زید رضی اللہ عنہ نے آپ کا سامانِ سفر اُتار کر اپنے گھر میں رکھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں قیام پذیر ہوگئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے باڑے کے بارے میں پوچھا: یہ کس کا ہے؟ تو معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! یہ عمرو کے دونوں بیٹوںسہل اور سہیل کا ہے ، یہ دونوں یتیم میرے زیر نگرانی ہیں، اور میں ان دونوں کو اس زمین کے لیے راضی کرلوں گا، آپ اسے مسجد بنالیجیے گا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعمیرِ مسجد کا حکم دے دیا۔ [1]
بیہقی رحمہ اللہ نے دلائل النبوہ میں لکھا ہے : جب اونٹنی ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے دروازے پر بیٹھ گئی تو بنی نجار کی کچھ چھوٹی لڑکیاں دف بجاتی ہوئی اور یہ کہتی ہوئی نکلیں:
نَحْنُ جَوَارٍ مِّنْ بَنِی النَّجَّارِ
یَا جَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِّنْ جَارِ
’’ہم بنی نجار کی لڑکیاں ہیں ، محمد ہمارے کتنے اچھے پڑوسی بن گئے ہیں ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر نکلے اور کہا: کیا تم لوگ مجھ سے محبت کرتی ہو، تو انہوں نے کہا: ہاں ، اللہ کی قسم! یا رسول اللہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور میں بھی اللہ کی قسم! تم سب سے محبت کرتا ہوں ، آپ نے یہ جملہ تین بار دُہرایا، اسے امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک میں روایت کیا ہے اور اسی جیسی ایک حدیث امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے روایت کی ہے۔
صحیح بخاری میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں اور بچوں کو کسی شادی سے واپس آتے دیکھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے کھڑے ہوگئے اور کہا: اللہ گواہ ہے کہ تم لوگ مخلوق میں سب سے زیادہ مجھے محبوب ہو،
|