بن اوس تھے جو ایک ڈھال اُٹھائے ہوئے تھے، میں فوراً زمین پر بیٹھ گئی اور سعد رضی اللہ عنہ گزر گئے، وہ لوہے کی ایک زرہ پہنے ہوئے تھے جس سے ان کے جسم کے بعض حصے نکلے ہوئے تھے، میں سعد رضی اللہ عنہ کے جسم کے ان حصوں کے بارے میں ڈرنے لگی، سعد رضی اللہ عنہ ایک بھاری بھرکم اور لمبے آدمی تھے، عائشہ رضی اللہ عنہ نے پوری حدیث روایت کرنے کے بعد کہا: قریش کے ابن العرقہ نامی ایک مشرک نے سعد پر تیر چلایا اور کہا: یہ لو، میں ہوں ابن العرقہ، وہ تیر سعد رضی اللہ عنہ کے بازو میں جاکر لگا اور اسے کاٹ ڈالا، سعد رضی اللہ عنہ نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ! مجھے اس وقت تک موت نہ دے جب تک میری آنکھیں بنو قریظہ کی طرف سے ٹھنڈی نہ ہوجائیں (بنو قریظہ کے لوگ جاہلیت میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے حلیف تھے) چنانچہ آپ کا زخم بھر گیا اور اللہ عزوجل نے مشرکوں پر ایک تیز ہوا بھیج دی جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مومنوں کی طرف سے میدانِ کارزار میں کافی ثابت ہوا، اور اللہ تو بہر حال بڑی قوت اور بڑی عزت والا ہے، چنانچہ ابو سفیان اور اس کے ساتھی تہامہ کی طرف جاپہنچے، اور عیینہ بن حصن اور اس کے ساتھی نجد سے جالگے۔ [1]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد نبوی میں ایک خیمہ ڈال دیا، تاکہ آپ ہرکچھ دیر کے بعد ان کی عیادت کرتے رہیں، سعد رضی اللہ عنہ غزوۂ بنو قریظہ کے بعد اسی زخم کے خراب ہونے اور دوبارہ کھل جانے کے سبب وفات پاگئے۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین صحابہ کرام میں سے تھے، ان کے فضائل ومناقب بہت ہیں اور اسلام کی خاطر ان کی قربانیاں عظیم ہیں۔ [2]
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی مُخبری:
اسی سخت برفیلی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کو مشرکوں کی خبریں لانے کے لیے بھیجا۔ حذیفہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز پڑھی پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: کون ہے جو جاکر کافروں کی خبریں جمع کرکے لائے، اور میں اللہ تعالیٰ سے سوال کروں گا کہ وہ آدمی جنت میں میرا ساتھی ہو، تو بھوک اور ٹھنڈک کی شدت کے سبب کوئی آدمی بھی کھڑا نہیں ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، اور میرے لیے آپؐ کے پکارنے کے بعد کوئی چارۂ کار نہ رہا، آپؐ نے فرمایا: اے حذیفہ! جاؤ، کافروں کے اندر گھس جاؤ اور دیکھو کہ وہ کیا کرتے ہیں ؟ اورجب تک تم ہمارے پاس نہ آجاؤ، اپنی طرف سے کوئی کام نہ کرنا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں گیا اور کافروں کے بیچ داخل ہوگیا، اور ہوااور اللہ کے دوسرے لشکر اپنا کام کررہے تھے، اور کافروں کو کسی طرح قرار حاصل نہیں تھا، نہ ان کی آگ روشن ہوئی، اور نہ کوئی مکان وخیمہ اپنی جگہ محفوظ رہا۔
میں نے ابوسفیان کو کہتے سنا: اے اہلِ قریش! تم لوگ اپنے شہر میں نہیں ہو، اور ہمارے اونٹ اور دیگر جانور ہلاک ہوگئے، اور بنو قریظہ نے معاہدہ توڑ دیا، اور ہمیں ان کے بارے میں بُری خبریں مل چکی ہیں، اور اِس ہوا نے ہمارا حال بُرا بنادیا ہے، نہ ہماری ہانڈی چولہے پر رہتی ہے اور نہ آگ جلتی ہے اور نہ ہمارا کوئی خیمہ اپنی جگہ پر قائم ہے، اس لیے تم لوگ جلد از جلد یہاں سے کوچ کر جاؤ، میں بھی یہاں سے کوچ کررہا ہوں۔ پھر اپنے اونٹ کے پاس گیا، جورسی سے بندھا ہوا تھا، اور اس پر بیٹھ کر اسے چابک سے مارنے لگا، جس کے سبب اونٹ نے تین پاؤں پر چھلانگ لگادی، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پابند نہ کیا ہوتا کہ میں ان کے پاس آنے سے پہلے اپنی طرف سے کوئی حرکت نہ کروں تو میں اسے قتل کردیتا۔
|