Maktaba Wahhabi

353 - 704
مطابق سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عُمیر! اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمہارے اس تحیہ سے بہتر اہل جنت کا تحیہ السلام علیکم عطا فرمایاہے، اے عمیر! تم کس لیے آئے ہو؟ اس نے کہا: میں اپنے بیٹے کا فدیہ لے کر آیا ہوں جو آپ لوگوں کے پاس قیدی ہے، آپ لوگ اس کا فدیہ لے کر ہم پر احسان کیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہاری گردن میں یہ تلوار کیوں لٹک رہی ہے؟ اُس نے کہا: اِن تلواروں کا بُرا ہو، انہوں نے ہمیں کیا فائدہ پہنچایا ہے، میں اونٹنی سے اُترتے وقت اپنی گردن میں ہی اسے لٹکتا ہوا بھول گیا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے کہا: سچ بتاؤ، تم کس لیے آئے ہو؟ اُس نے کہا: میں صرف اسی کام کے لیے آیا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: بلکہ تم اور صفوان بن امیہ حِجر میں بیٹھے بدر کے کنویں میں ڈالے گئے قریشی مقتولین کو یاد کررہے تھے، تم نے کہا: اگر مجھ پر قرض نہ ہوتا، اور میرے چھوٹے بچے نہ ہوتے تو مدینہ جاکر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کردیتا، اور صفوان نے تمہارے قرض اور بال بچوں کی ذمہ داری لے لی تاکہ تم مجھے قتل کردو، لیکن اللہ میرے اور تمہارے درمیان حائل ہے۔ عمیر نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، اور آپ سچے ہیں، آپ جب آسمان کی خبریں ہمارے پاس لاتے تھے تو ہم سب آپ کو جھٹلاتے تھے، اور اس گفتگو کے وقت تو میرے اور صفوان کے سوا کوئی نہ تھا، اللہ کی قسم، مجھے یقین ہے کہ اِس کی خبر آپ کو اللہ نے دی ہے، اور اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اسلام لانے کی ہدایت دی، اور آپ کے پاس پہنچادیا، پھر اُس نے کلمۂ حق اپنی زبان سے ادا کیا، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم لوگ اپنے بھائی کو دین کی تعلیم دو، اور اسے قرآن پڑھنا سکھاؤ، اور اس کے قیدی کو چھوڑ دو۔ صحابہ نے ایسا ہی کیا۔ عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! میں اللہ کے نور کوبجھانے کی کوشش کرتا رہا ہوں، اور اللہ کے بندوں کو بڑی تکلیف پہنچاتا رہا ہوں، میں پسند کروں گا کہ آپ مجھے مکہ جانے کی اجازت دیجیے تاکہ میں اہلِ مکہ کو اللہ اور اسلام کی طرف بلاؤں، شاید کہ اللہ انہیں ہدایت دے دے۔اُدھرصفوان قریشیوں سے کہتا پھرتا تھا: تمہیں ایک واقعہ کی خوشخبری دیتا ہوں جو چند ہی دنوں میں ہونے والا ہے، اُسے سن کر تم بدر کی مصیبتوں کو بھول جاؤگے، اور صفوان ہر دن عُمیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں مدینہ کی طرف سے آنے والوں سے پوچھتا رہتا تھا، یہاں تک کہ ایک قافلہ نے اُسے عمیر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کی خبر دی،یہ سُن کر اس نے قسم کھائی کہ وہ اس سے کبھی بات نہیں کرے گا، اور اس کو کوئی نفع نہیں پہنچائے گا، عُمیر رضی اللہ عنہ مکہ پہنچ کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے لگے، چنانچہ بہت سے لوگ ان کے ہاتھ پر اسلام لے آئے۔ [1] رُقیّہ رضی اللہ عنہما بنت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات: اسی سال ماہِ رمضان میں، جس دن زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما مومنوں کی فتح ونصرت اورمشرکوں کی شکستِ فاش کی خبر لے کر آئے، رقیہ بنت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئیں اور مسلمانوں نے انہیں دفن کردیا۔ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگوں کو مدینہ میں معرکۂ بدر میں مسلمانوں کی فتح ونصرت کی خبر اُس وقت ملی جب ہم رقیہ بنت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کودفن کرچکے تھے، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے شوہر عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ اُن کی دیکھ بھال کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ [2]
Flag Counter