کی حرمتوں کی تعظیم ہوگی، اسے میں قبول کرلوں گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل سے کہا: میری شرط یہ ہے کہ تم لوگ ہمارے اور خانہ کعبہ کے درمیان رُکاوٹ نہ بنو تاکہ ہم اس کا طواف کریں۔ سہیل نے کہا: ہم نہیں چاہتے کہ عرب کے لوگ کہیں کہ ہم پر دباؤ ڈال کر یہ شرط منظور کرالی گئی ہے۔ اس لیے تم لوگ آئندہ سال خانہ کعبہ کا طواف کروگے۔ علی رضی اللہ عنہ نے اسے لکھ لیا۔ سہیل نے کہا: اگر تمہارے پاس ہماراکوئی آدمی چلاجائے گا تو اُسے تم واپس کردوگے، چاہے وہ تم لوگوں کے دین پر ہوگا۔ مسلمانوں نے کہا: سبحان اللہ! مسلمان ہوگا تو اُسے کیسے واپس کردیا جائے گا، سہیل نے کہا: اور جو کوئی چاہے گا محمد کے ساتھ عہد نامہ میں داخل ہوگا، اور جو کوئی چاہے گا قریش کے ساتھ عہد نامہ میں داخل ہوگا۔ یہ سنتے ہی خزاعہ والوں نے کہا: ہم اس عہد نامہ میں محمد کے ساتھ رہیں گے، اور بنو بکر والوں نے کہا: ہم لوگ قریش کے ساتھ رہیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صُلح نامہ کی اصل کاپی لے لی۔ پھر اس کی ایک دوسری کاپی تیار کی گئی جسے سہیل بن عمرو نے لے لیا۔
ابوجندل بن سہیل بن عمر و مسلمان ہوگئے:
ابو جندل رضی اللہ عنہ مکہ سے نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے، اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سہیل کے ساتھ صلح نامہ تیار کررہے تھے۔ مسلمان انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ سہیل نے جب سر اٹھاکر دیکھا تو اس کے سامنے ابوجندل رضی اللہ عنہ کھڑے تھے۔ وہ کھڑا ہوا اوراُن کے چہرہ پر ایک خاردار ڈالی سے مارا، اور انہیں ان کے گریبان سے پکڑلیا۔ابوجندل رضی اللہ عنہ اونچی آواز سے چیخنے لگے کہ اے مسلمانو! کیا مجھے مشرکوں کے پاس بھیج دیا جائے گا تاکہ وہ میرے دین اسلام میں داخل ہونے کی وجہ سے مجھے قتل کردیں ؟ مسلمان ابوجندل رضی اللہ عنہ کی بات سُن کر رونے لگے۔ سہیل نے کہا: اے محمد ! یہ تو میری پہلی شرط ہے تمہارے ساتھ، اس لیے اِسے لوٹادو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تک ہم نے عہد نامہ پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ سہیل نے کہا: اللہ کی قسم! میں تمہارے ساتھ کسی بات پر معاہدہ نہیں کرسکتا جب تک تم اسے واپس نہ کردوگے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجندل رضی اللہ عنہ کو واپس کردیا اور اُن سے کہا: ابوجندل صبرسے کام لو، اور اللہ سے اجر کی نیت کرلو۔ یقینا اللہ تمہارے لیے اورتمہارے دیگر مسلمان ساتھیوں کے لیے وُسعت پیدا کرے گا، اور کوئی راہ نکالے گا۔ ہم نے مشرکوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کرلیا ہے، اور ہم لوگ کسی کودھوکہ نہیں دیتے۔ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی، بال منڈایا اورحلال ہوگئے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صلح نامہ کی کتابت ودستخط سے فارغ ہوگئے، تو صحابہ کرام سے فرمایا: مسلمانو! اُٹھو، قربانی کرو، اور بال منڈاؤ۔ راوی کہتے ہیں: اللہ کی قسم! ایک آدمی بھی نہیں اُٹھا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات تین بار دُہرائی۔ جب کوئی نہ اُٹھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم امّ سلمہ رضی اللہ عنھا کے پاس گئے اور اُن کو سارا ماجرا سُنایا۔امّ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا:اے اللہ کے نبی !اگر آپ چاہتے ہیں کہ صحابہ آپ کی اس بات پر عمل کریں تو آپ کسی سے بات نہ کریں، بلکہ باہرنکل کر جائیے، اپنی قربانی کیجیے، اور نائی کو بلوا کر بال منڈا لیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ جب صحابہ نے آپؐ کا عمل دیکھا، تو سب لوگ قربانی کرنے لگے، اور ایک
|