Maktaba Wahhabi

234 - 704
اہلِ طائف کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا رسانی : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سردارانِ ثقیف کی طرف سے ناامید ہوگئے اوروہاں سے چل پڑے، اور سردارانِ ثقیف کا جواب اہلِ طائف میں ہر چہار جانب گشت کرنے لگا، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ قیام کیا ، بعض روایتوں میں دس دن آتا ہے ، اس پوری مدت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہے ، سردارانِ طائف میں سے ایک ایک سے مل کر بات کرتے رہے، لیکن ان میں سے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول نہیں کیا، اور کسی کی طرف سے آپؐ کو خیر کی امید نظر نہیں آئی۔ طائف والوں کو اپنے کم عمر نوجوانوں کے بارے میں ڈر ہوا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں سے متأثر نہ ہوجائیں، اس لیے انہوں نے کہا: اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! تم ہمارے شہر سے نکل جاؤ، اور مکہ واپس چلے جاؤ، پھر انہو ں نے اپنے اوباشوں اور بدمعاشوں کو آپ کے خلاف ورغلایا، وہ سب آپ کے راستے میں دو صف بناکر کھڑے ہوگئے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان سے گزرے تووہ سب آپؐ کو گالیاں دینے لگے اور پتھروں سے مارنے لگے، یہاں تک کہ آپؐ کے دونوں ٹخنےزخمی ہوگئے، اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اپنے جسم کے ذریعہ آپ کو بچاتے رہے ، یہاں تک کہ ان کا سر شدید زخمی ہوگیا،اور آپ مجبور ہوکر عُتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ کے ایک باغ میں داخل ہوگئے، اس وقت وہ دونوں وہیں تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگور کے ایک درخت کے سایے میں جاکر بیٹھ گئے آپؐ چوٹ کی تکلیف سے کراہ رہے تھے اور آپؐ کے دونوں قدموں سے خون جاری تھا، اور ربیعہ کے دونوں لڑکے آپؐ کو دیکھ رہے تھے ، اور اوباشِ ثقیف نے ان کے ساتھ جو بُرا برتاؤ کیا تھا اس پر ایک گونہ ہمدردی کا اظہار کررہے تھے ، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دونوں پر نگاہ پڑی تو ان کا آپ کو اس حال میں دیکھ لینا آپ کو پسند نہ آیا، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ اور اس کے رسول سے ان دونوں کی عداوت کا حال خوب معلوم تھا۔ جب آپؐ کو یک گونہ اطمینان ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر لمبی دعا کی، جس کا خلاصہ یہ ہے : ’’اے اللہ ! میں تیری جناب میں اپنی کمزوری ، کسمپرسی، اور لوگوں کی نگاہوں میں اپنی بے وقعتی کی شکایت کرتا ہوں ، اے ارحم الراحمین! تو تمام کمزوروں کا رب ہے ، اور تو میرا رب ہے ، تومجھے کس کے حوالے کرتا ہے ، کیا کسی اجنبی کے حوالے جو مجھے ترش روئی سے دیکھتا ہے یا کسی دشمن کے حوالے جو میرے معاملات کا مالک بن بیٹھا ہے ، اگر تومجھ سے ناراض نہیں ہے تو میں کسی بات کی پروا نہیں کرتا ہوں ، لیکن تیری عافیت کا دائرہ میرے لیے بہت زیادہ وسیع ہے، میں تیرے اس چہرے کے نور کے ذریعہ پناہ لیتا ہوں ، جس نے کائنات کی ساری تاریکیوں کو دور کردیا ہے ، اور جس کے ذریعہ دنیا وآخرت کے تمام معاملات سدھر گئے ہیں، میں پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا تومجھ سے ناراض ہوجائے ۔ میں تیری طرف اپنی ہر معصیت وخطا سے رجوع کرتا ہوں ، یہاں تک کہ توراضی ہوجائے، تیرے بغیر کسی کے پاس نہ کوئی طاقت ہے اور نہ کوئی قدرت۔‘‘ عدّاس نصرانی کا قصہ: عتبہ اور شیبہ نے اپنے ایک نصرانی غلام کو بلایا، جو نینویٰ کا رہنے والا تھا، اُس کا نام عدّاس تھا، انہو ں نے اس سے کہا: اس انگور کا ایک گچھا لے لو اور اُسے پلیٹ میں ڈال کر اس آدمی کے پاس لے جاؤ، اور اسے کھانے کو کہو، غلام نے ایسا ہی کیا، اور
Flag Counter