انگور لاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ کھانے کے لیے بڑھایا تو کہا: بسم اللہ ،پھر کھانے لگے، تو عدّاس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کی طرف دیکھا اور کہا: اللہ کی قسم! اس شہر کے لوگ تو ایسا نہیں کہتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: تم کہاں کے رہنے والے ہو اور تمہارا دین کیا ہے ؟ اس نے کہا: میں نصرانی ہوں اور نینویٰ کا رہنے والا ہوں ، تو اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: کیا تم مردِ صالح یونس بن متّی کے شہر کے رہنے والے ہو، عدّاس نے کہا: آپ کو کیا معلوم کہ یونس بن متّی کون تھے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ میرے بھائی تھے، وہ بھی نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں ۔ یہ بات سن کر عدّاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر، دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کو والہانہ طور پر چومنے لگا۔
جب ربیعہ کے دونوں بیٹوں نے یہ منظر دیکھا، تو ایک نے دوسرے سے کہا: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہارے غلام کو خراب کردیا، جب عداس لوٹ کر ان کے پاس آیا تو دونوں نے اس سے پوچھا: عدّاس تمہارا بُرا ہو تم اس آدمی کا سر، اس کے ہاتھ اور پاؤں کیوں چوم رہے تھے؟ ہم نے تمہیں کبھی بھی ہم میں سے کسی کے ساتھ ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ تو اس نے کہا: میرے آقا! اس سرزمین پر ان سے بہتر اس وقت کوئی نہیں ہے، انہو ں نے مجھے ایک ایسی بات کی خبر دی ہے جسے کوئی نبی ہی جانتا ہے، تو وہ دونوں اس کی بات پر ہنسنے لگے اور کہا: دیکھو یہ آدمی تمہیں تمہاری نصرانیت سے برگشتہ نہ کردے، یہ بڑا دھوکا بازآدمی ہے۔
بعض مؤلفین سیرت نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی ایک حدیث کو اس ضمن میں زبردستی داخل کردیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا آپ پر اُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہاری قوم نے مجھے عقبہ کے دن جو تکلیف پہنچائی وہ زیادہ سخت تھی، جب میں نے اپنی دعوت ابن عبدیالیل بن عبدکلال کے سامنے پیش کی ، تو اس نے اسے قبول نہیں کیا ، میں وہاں سے مغموم ومہموم چل پڑا، یہاں تک کہ قرن ثعالب کے پاس آگیا، وہاں میں نے اپنا سر اُٹھایا تو دیکھا: ایک بادل مجھ پر سایہ فگن ہے اور اس میں جبریل علیہ السلام کودیکھا، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا: بے شک اللہ نے آپ کی قوم کا جواب سن لیا ہے ، اور اس نے آپ کے لیے پہاڑوں کے فرشتہ کو بھیجا ہے ، تاکہ آپ ان کا فروں کے بارے میں جو چاہیں حکم دیں۔ اس حدیث میں آیا ہے کہ فرشتہ نے کہا: اگر آپ چاہیں تو انہیں مکہ کے جبل ابی قبیس اور اس کے مقابل کے پہاڑوں کے درمیان کچل دیا جائے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں میں ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جو اللہ کی عبادت کریں گے اور ان کے ساتھ کسی چیزکو شریک نہیں بنائیں گے۔ [1]
اِس حدیث میں قریش کی جانب سے عقبہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ٹھکرانے اور آپ کو ایذا پہنچانے سے متعلق تفصیل بیان کی گئی ہے ، اور یہ بتایا گیا ہے کہ فرشتہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اُس دن اِس بات کی اجازت مانگی تھی کہ وہ ان کافروں کو مکہ کے دو پہاڑوں کے درمیان کچل دیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طائف میں جو کچھ ہوا اس سے اس حدیث کا کوئی تعلق نہیں ۔ اس میں اس بات کی صراحت کردی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسمِ حج میں عقبہ کے دن اپنی دعوت ابن عبدیالیل کے سامنے پیش کی تھی۔
یہ بات بعید نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت ابن عبد یالیل کے سامنے موسمِ حج میں پیش کی ہو، اور عبد یالیل اور
|