غزوۂ بواط:
ماہِ ربیع الاول 2 ھ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوسو (200) سواروں کے ساتھ قریش کے ایک قافلہ کا پیچھا کرنے کے لیے نکلے، جو سو(100) آدمی پر مشتمل تھا، انہی میں امیہ بن خلف جمحی تھا، اور ان کے ساتھ دوہزار پانچ سو اونٹ تھے، اس غزوہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اپنا خلیفہ سائب بن عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو اور ایک قول کے مطابق سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا، اور اس جنگ کا عَلَم سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب رضویٰ کی طرف سے بواط پہنچے تووہاں کسی کو نہیں پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں ربیع الثانی کے باقی ایام اور جمادی الاولیٰ کے بعض ابتدائی ایام میں قیام کیا، پھر مدینہ لوٹ آئے۔ [1]
غزوۂ عشیرہ:
اسی 2 ھ ماہِ جمادی الاولیٰ کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ڈیڑھ یا دو سو مہاجرین کے ساتھ نکلے،اور کسی کو نکلنے پر مجبور نہیں کیا، یہ سب تیس اونٹوں پر باری باری سوار ہوکر سفر کرتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی تھی کہ قریش کے ایک سے زیادہ قافلے شام جارہے ہیں، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا کہ ان میں سے بعض قافلوں کو جالیں، اور مدینہ میں اپنا خلیفہ ابو سلمہ بن عبدالاسد کو بنایا اور عَلَمِ جہاد حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو دیا، اور سفر جاری رکھا، یہاں تک ینبع کی وادی میں مقامِ عشیرہ پہنچے، وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ قافلہ تو کئی دن پہلے یہاں سے آگے جاچکا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جمادی الاولیٰ اور جماد ی الاخری کی چند راتیں ٹھہرے رہے۔ اس مدت میں بنی مُدلج اور ان کے حلیفوں سے معاہدۂ امن کیا، پھر مدینہ لوٹ آئے۔ [2]
غزوۂ بدر اولیٰ:
ابن اسحاق کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوۂ عشیرہ سے مدینہ واپس ہوئے ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ کرز بن جابر فہری نے مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کردیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کا خلیفہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بناکر خود اس کی تلاش میں نکل پڑے، یہاں تک کہ بدر کے علاقے میں صفوان نامی وادی تک پہنچ گئے۔ اس غزوہ کا علَم علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کرز اور اس کے ساتھیوں سے مڈبھیڑ نہیں ہوئی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر جنگ کے ہی مدینہ واپس آگئے اور اس غزوہ کا نام غزوۂ بدر اس لیے رکھ دیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع سے بدر کے قریب پہنچ گئے تھے اور اس کو ’’اولیٰ‘‘ کے ساتھ اس لیے متصف کیا گیا تاکہ اس میں اور غزوۂ بدر الکبریٰ میں تفریق کیا جائے، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں کو ابو سفیان اور مشرکوں پر نصرِ مبین عطا کی تھی۔ [3]
سریّہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ :
یہ فوجی دستہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے غزوۂ بدر الکبریٰ کا ایک پیش خیمہ تھا، اس لیے کہ یہ سَریّہ ماہِ رجب 2ھ میں نکلا تھا،
|