اور غزوۂ بدر الکبریٰ اسی سال ماہ رمضان میں ہوا۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عبیدہ عامر بن جراح رضی اللہ عنہ کو آٹھ آدمیوں کے ساتھ مقامِ نخلہ کی طرف بھیجنے کا ارادہ کیا، جومکہ اور طائف کے درمیان ہے۔ جب سَریّہ کی تیاری ہوگئی اور سفر کا ارادہ کیا تو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی کے تصور سے رونے لگے۔ اس لیے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رُک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آٹھوں اشخاص کو عبداللہ بن جحش اسدی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا جو اوائل مسلمین میں سے تھے اور پہلے ہجرت کرکے حبشہ گئے تھے، پھر مدینہ آگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک پوشیدہ خط لکھا اور حکم دیا کہ وہ اِسے فلاں جگہ پہنچنے سے پہلے نہ پڑھیں، نیز یہ کہا: تم اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو خط سننے کے بعد اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کرنا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں: جب عبداللہ رضی اللہ عنہ نے دو دن کا راستہ طے کرلیا تو خط کھولا، لکھا تھا کہ جب تم میرا یہ خط دیکھو، تو آگے چلو، یہاں تک کہ مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ نامی مقام تک پہنچ جاؤ، وہاں پہنچ کر کفارِ قریش کے بارے میں معلومات جمع کرو۔
سیّدنا عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے خط پڑھنے کے بعد کہا: ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سُنی اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانبردار ہیں، اور اپنے ساتھیوں کو خط کے مضمون سے آگاہ کیا، اور کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم میں سے کسی کو آگے چلنے پر مجبور کرنے سے منع فرمایاہے، اس لیے تم میں سے جو شخص شہادت کی تمنا رکھتا ہے، وہ آگے بڑھے، اور جو اسے ناپسند کرتا ہے وہ لوٹ جائے، البتہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو بجالانے کے لیے آگے بڑھوں گا۔
چنانچہ وہ اور ان کے تمام ساتھی آگے بڑھے، کوئی بھی پیچھے نہ رہا، اور حجاز کی طرف بڑھتے رہے، یہاں تک کہ جب فرع نامی مقام کے بالائی علاقہ میں بحران نام کے معدن کے پاس پہنچے توسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کا ایک اونٹ گم ہوگیا، جس پر یہ دونوں باری باری سوار ہوتے تھے، اس لیے وہ دونوں اس کی تلاش میں پیچھے رہ گئے، اور سیّدنا عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ باقی ساتھیوں کے ساتھ نخلہ پہنچ گئے۔
وہاں سے قریش کا ایک قافلہ گزرا جس میں عمرو بن الحضرمی، عثمان بن عبداللہ بن مغیرہ مخزومی، اس کا بھائی نوفل اور حکم بن کیسان(ہشام بن مغیرہ کا آزاد کردہ غلام) تھے۔ ان لوگوں نے ابن الحضرمی کو قتل کردیا، اور عثمان بن عبداللہ اور حکم بن کیسان کو قیدی بنالیا، اور نوفل بن عبداللہ بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ واقعہ ماہِ رجب کی پہلی تاریخ کو ہوا تھا، اور یہ لوگ جان نہ سکے کہ وہ دن ماہِ رجب کا تھا یا جمادی الثانیہ کا۔
عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی قافلے کا ساز وسامان اور دونوں قیدیوں کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ واپس آگئے۔ اور عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے اس مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے الگ کرکے باقی کو اپنے ساتھیوں میں تقسیم کردیا۔ اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ دیے جانے کے نزولِ حکم سے پہلے کا ہے، اور جب یہ حکم اللہ کی طرف سے نازل ہوا تو عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کی تقسیم کے مطابق تھا۔
ابن ہشام کہتے ہیں: یہ پہلا مالِ غنیمت تھا جو مسلمانوں کو حاصل ہوا، اور عمرو بن حضرمی پہلا کافر تھا جسے مسلمانوں نے قتل کیا اور عثمان بن عبداللہ اور حکم بن کیسان پہلے دو قیدی تھے جنہیں مسلمانوں نے قید کیا۔
|