محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! اپنی شرمگاہ ڈھانکیے۔ اس کے بعد کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم عُریاں نہیں دیکھے گئے۔[1]
صحیح بخاری میں سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا تھا کہ اے بھتیجے! کیا ہی اچھا ہوتا کہ تم اپنی ازار کھول کر اپنے کندھے پر ڈال لیتے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا، اور اسے کندھے پر ڈال لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً بے ہوش ہوکر گر گئے۔ اُس دن کے بعد آپ کبھی بھی عُریاں نظر نہ آئے۔ [2]
جب دیوار اٹھارہ گز اونچی ہوگئی، اور دروازہ زمین سے اتنا اونچا کردیا گیا کہ بغیر سیڑھی کے وہاں تک چڑھنا مشکل ہوگیا، تو انہوں نے حجرِ اسود کو اس کی جگہ پر رکھنا چاہا، ہر قبیلے نے کہنا شروع کیا کہ اسے ہم اٹھاکر اس کی جگہ پر رکھنے کے زیادہ حقدار ہیں۔اور اختلاف اتنا بڑھا کہ جنگ کی نوبت آگئی، انہوں نے بالآخر اس بات پر اتفاق کیا کہ قریش کا سب سے عمر رسیدہ آدمی اس کا فیصلہ کرے۔ وہ آدمی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا چچا ولید بن مغیرہ مخزومی تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ جو آدمی بابِ بنی شیبہ سے سب سے پہلے داخل ہوگا وہی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ اللہ کی مشیت سے سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے۔ جب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو داخل ہوتے دیکھا، تو کہا:یہ تو الأمین آگئے، ہم ان کے فیصلے پر راضی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ ایک کپڑا لاؤ، انہوں نے حجر ِاسود کو اس کپڑے کے بیچ میں رکھ دیا، پھر سب سے کہا: ہر قبیلہ کپڑے کا ایک کنارہ پکڑلے، پھر سب نے مل کر اُسے اٹھایا، اور جب حجرِ اسود کی جگہ پر پہنچے تو آپ نے اُسے اپنے ہاتھ سے اس کی پہلی جگہ پر رکھ دیا اور اس کے اوپر سے کچھ تعمیر کردی۔ [3]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بتوں سے بغض و عداوت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن سے ہی بُتوں سے بغض رکھتے تھے، اور اس کی طرف نظر التفات نہیں کرتے تھے ۔ ابن سعد نے سیّدناابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیںکہ مجھے امّ ایمن رضی اللہ عنہ نے بتایا : ’’بوانہ ‘‘نام کا ایک بُت تھا جس کے پاس اہلِ قریش جاکر اس کی تعظیم کرتے ، اس کے سامنے جانور ذبح کرتے، اپنے سروں کو منڈواتے، اور سال میں ایک دن اس کے پاس اعتکاف کرتے ۔ ابو طالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عید میں شرکت کے لیے کہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکار کردیتے۔ میں نے اس بارے میں ابوطالب کو ناراض ہوتے بھی دیکھا ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھیاں تو ایک دن سخت ناراض ہوئیں، اور کہنے لگیں : تم جو ہمارے معبودوں سے الگ رہتے ہو تو ہمیں تمہارے بارے میں ڈر لگتا ہے۔جب سب مل کر اسی طرح بار بار اصرار کرتے رہے، تو آپ ایک بار اُس کے پاس گئے، اور کچھ دیر تک گھر سے غائب رہے،پھر جو لوٹے تو بہت ہی زیادہ خوفزدہ نظر آئے۔ پھوپھیوں نے پوچھا: تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ کہیں مجھے جنون تو لاحق نہیں
|