کیا تم سمجھتے ہو کہ محمد نبی ہیں ؟ میں نے کہا: ہاں، وہ یقینا نبی ہیں۔ اس نے کہا: جب بات ایسی ہے تو اس نے اپنی قوم پر بددعا کیوں نہیں کردی جنہوں نے اسے اس کے شہر سے نکال دیا ؟ میں نے کہا: کیا تم عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بارے میں اعتقاد نہیں رکھتے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ؟ پھر جب اُن کی قوم نے انہیں پکڑلیا، اور انہیں قتل کرناچاہا، تو انہوں نے ان لوگوں پر کیوں نہ بددعا کردی کہ اے اللہ اِن لوگوں کوہلاک کردے، اس کے بجائے اللہ نے انہیں آسمانِ دنیاپر اُٹھالیا؟ مقوقس نے کہا: تم حکیم ہو اور حکیم کے قاصد بن کر آئے ہو۔ یہ چند تحفے ہیں جنہیں میں تمہارے ساتھ محمد کے لیے بھیج رہا ہوں، اور تمہارے ساتھ ایک نگراں کو بھیج رہا ہوں جو تمہیں محفوظ مقام تک پہنچادے گا۔ چنانچہ اُس نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تین لونڈیاں روانہ کیں۔ انہی میں سے ابراہیم بن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں تھیں۔ اور ایک لونڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جہم بن حذیفہ عدوی رضی اللہ عنہ کو ہبہ کردی، اور تیسری حسّان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو ہبہ کی۔ [1]
ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اور تحفوں میں ایک خصی شدہ کالا غلام بھی تھا جس کا نام مأبور تھا، اور دوسادہ کالے موزے اور دُلدل نامی ایک سفید خچر تھا۔ [2]
اور ابن سعد نے طبقات میں اور ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے زُرقانی، قزوینی اور زیلعی وغیرہم کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ مقوقس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا: ’’میں جانتا تھا کہ ایک نبی کا آنا باقی ہے، اور میرا خیال تھا وہ نبی شام میں ظاہر ہوگا۔ اور میں نے آپ کے قاصد کی تکریم کی ہے، اور آپ کے لیے دو لونڈیاں بھیج رہا ہوں جن کی یہاں قبطیوں میں بڑی حیثیت ہے اور کپڑوں کا ایک جوڑا اور سواری کے لیے ایک خچر بھی ہدیہ بھیج رہا ہوں۔ ‘‘
اس سے زیادہ اس نے کچھ نہیں لکھا، اور نہ اسلام لایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہدیہ قبول کرلیا، اور دونوں لونڈیاں بھی، ابراہیم بن رسو ل اللہ کی ماں ماریہ، اور اُن کی بہن سیرین، اور سفید خچر جس کا نام دُلدُل تھا، جس کے سوا بلادِ عربیہ میں اُن دنوں کوئی خچر نہیں تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبیث نے اپنی بادشاہت کو بچاناچاہا ہے، حالانکہ اس کی بادشاہت اب باقی نہیں رہے گی۔ [3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامۂ گرامی حارث بن أبی شمرغسّانی کے نام:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بادشاہوں کے نام خطوط لکھے، اُن میں ایک حارث بن ابی شمر غسّانی بھی تھا۔ اس کے نام کا خط لے کر اس کے پاس شجاع بن وہب اَسدی رضی اللہ عنہ گئے تھے۔ اس خط کا ترجمہ مندرجہ ذیل ہے:
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم، اللہ کے رسول محمد کی طرف سے حارث بن ابی شمر کے نام۔ اللہ کی سلامتی ہو اُس پر جس نے دینِ حق کی اتباع کی، اور اللہ پر ایمان لایا، اور تصدیق کی۔ اور میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ ایک اللہ پر ایمان لے آؤجس کا کوئی شریک نہیں، تو تمہاری بادشاہت باقی رہے گی۔ ‘‘
|