درخت کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھا مے ہوئے تھے۔ یعنی جب انہیں بیعت کا علم ہوا تو فوراً آکر بیعت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھا م لیا تاکہ بیعت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے لیے خود بیعت کی:
عثمان رضی اللہ عنہ چونکہ قریش کے پاس محبوس تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی طرف سے خود بیعت کی اور فرمایا: عثمان اللہ اور ا س کے رسول کے کام سے گئے ہیں، ا س لیے اُن کی طرف سے میں بیعت کرتا ہوں، اور اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر مارکر فرمایا: یہ عثمان کی بیعت ہے۔
عثمان بن وہب نے ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:بیعت الرضوان سے عثمان رضی اللہ عنہ کی غیر حاضری کے بارے میں عرض ہے کہ اگر وادئ مکہ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کوئی آدمی زیادہ معزز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو اپنا نمائندہ بناکر بھیجتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کو جب مکہ روانہ کردیا تب بیعت الرضوان واقع ہوئی، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کے بارے میں فرمایا: یہ عثمان کا ہاتھ ہے، اور اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر مار کر فرمایا: یہ عثمان کی بیعت ہے۔ [1]
عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کس بات کی تھی؟
حدیبیہ کے دن صحابہ کرام کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کس بات کے لیے تھی، اس بارے میں روایات مختلف ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے سلمہ بن الاکوع سے روایت کی ہے کہ صحابہ نے موت پر بیعت کی تھی، اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ اور ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ سب نے اس بات پر بیعت کی تھی کہ وہ میدانِ جنگ سے فرار نہیں اختیار کریں گے، موت پر بیعت نہیںکی تھی۔ اور بخاری نے نافع کے ذریعہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے صبرکرنے کی بیعت کی تھی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اِن اقوال کے درمیان توافق پیدا کرنے کی یوں کوشش کی ہے کہ بیعت مطلق اور عام تھی، اور موت پراور عدمِ فرار پر بیعت کے درمیان کوئی تعارض نہیں پایا جاتا، اس لیے کہ موت پربیعت سے مراد یہی تو ہے کہ وہ میدانِ جنگ سے ہرگز فرار نہیں اختیار کریں گے چاہے اُن کی موت آجائے، یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ مرجانا ضروری ہے، اور نافع نے اسی کا انکار کیا ہے، اور کہا ہے کہ صحابہ نے صبر کرنے کی بیعت کی تھی۔یعنی ثابت قدمی، استقامت اور نہ بھاگنے کی، چاہے یہ عمل انہیں موت تک پہنچادے۔ واللہ اعلم۔ [2]
اصحابِ بیعت رضوان اہلِ زمین میں سب سے اچھے تھے:
صحابۂ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری قوت اور جذبۂ کامل کے ساتھ بیعت کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت کرتے رہے، اور برضا ورغبت انہوں نے اپنی جانوں کو اللہ کے ہاتھ بیچ دیا، اسی لیے اللہ تعالیٰ اُن سے راضی ہوگیا، اور اُن کے بارے میں قرآن میں نازل فرمایا:
((لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ
|