اسلامی فوج کے تین ڈویژن:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کی طرف نکلنے سے پہلے اپنی فوج کو تین ڈویژنوں میں تقسیم کردیا:
1- قبیلۂ اوس کا ڈویژن؛ جس کا علَم اُسید بن حُضیر رضی اللہ عنہ کو دیا۔
2- قبیلۂ خزرج کا ڈویژن؛ جس کا علَم خباب بن منذر رضی اللہ عنہ کو دیا۔
3- مہاجرین کا ڈویژن؛ جس کا علَم مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو دیا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ثنیۃ الوداع سے آگے بڑھ گئے تو آپؐ نے ایک اچھا ڈویژن دیکھا، اور اس کے بارے میں پوچھا تو آپ کو بتایا گیا کہ یہ خزرج کے یہودی حلفاء ہیں، جو مشرکوں کے خلاف جنگ میں شریک ہونا چاہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا یہ لوگ اسلام لے آئے ہیں، لوگوں نے کہا: نہیں، تو آپؐ نے اہلِ شرک کے خلاف اہلِ کفر کی مدد لینے سے انکار کردیا۔ [1]
اسلامی فوج کا معائنہ:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم الشیخان نامی مقام پر پہنچے، تو اپنی فوج کا معائنہ کیا، اور چھوٹی عمر کے افراد کو واپس کردیا، ان میں مندرج ذیل صحابہ تھے:
عبداللہ بن عمر بن الخطاب، زید بن ثابت، اسامہ بن زید، نعمان بن بشیر، زید بن ارقم، براء بن عازب، اُسید بن ظہیر، عرابہ بن اوس، ابو سعید خدری، سمرہ بن جندب، اور سعد بن حبہ انصاری۔( رضی اللہ عنھم اجمعین )
ان تمام کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس کردیا، پھر رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کواس لیے اجازت دے دی کہ وہ ماہر تیر انداز تھے، یہ دیکھ کر سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے اپنی ماں کے شوہر مری بن سنان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی، اور مجھے واپس کردیا، حالانکہ میں اسے پچھاڑ دیتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپؐ نے فرمایا: تم دونوں میرے سامنے کشتی لڑو، چنانچہ سمرہ رضی اللہ عنہ نے رافع رضی اللہ عنہ کو پچھاڑ دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی اجازت دے دی۔ [2]
اُحد پہنچنے سے پہلے کی رات:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فوج کے معائنہ سے فارغ ہوئے، اور فوج پوری طرح دشمن سے نبردآزمائی کے لیے تیار ہوگئی تو رات آگئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر عشاء کی پھر آپؐ نے پچاس آدمی کا انتخاب فوج کی نگرانی کے لیے کیا، تاکہ وہ ہر چہار جانب گشت کرتے رہیں، اوران کا قائد محمد بن مسلَمہ انصاری رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی ذکوان بن عبد قیس رضی اللہ عنہ نے کی، جو ایک پل کے لیے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہ ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک سوتے رہے۔
ابن اُبیّ کی اپنے ساتھیوں کے ساتھ پسپائی:
طلوعِ فجر سے تھوڑی دیر پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے آگے چل پڑے اور مقامِ شوط پر پہنچ کر فجر کی نماز ادا کی، یہاں
|