Maktaba Wahhabi

375 - 704
بن امیہ اپنی بیوی برزہ بنت مسعود بن عمرو بن عمیر ثقفیہ کو لے گیا، اور عمرو بن العاص اپنی بیوی ربطہ بنت منبہ ابن الحاج کو اپنے ساتھ جنگ پر لے گیا، جو اس کے بیٹے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی ماں تھی، اور دوسرے قریشی بھی اپنی عورتوں کواپنے ساتھ لے گئے۔ وحشی جب بھی ہند بنت عتبہ کے پاس سے گزرتا، یا وہ اس کے پاس سے گزرتی تو کہتی: اے ابو دسمہ! میری روح کو سکون پہنچادو، تم بھی سکون پاؤگے، یعنی اُسے حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے قتل پر ابھارتی تھی، یہ تمام کفار ومشرکین مدینہ کی طرف چل پڑے۔ فوج کی عام قیادت ابو سفیان کررہا تھا، اور گھوڑ سواروں کی قیادت خالد بن ولید کررہا تھا، اور اس کی مدد عکرمہ بن ابی جہل کررہا تھا، اور جنگ کا علَم بنو عبدالدار کے ہاتھ میں تھا۔ [1] یہ لوگ جمعہ کے دن 7/شوال سن تین ہجری کو جبل احد کے قریب مقامِ عینین میں خیمہ زن ہوئے، اور سیّدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ایک خط لکھ کر بنی غفار کے ایک آدمی کے ذریعہ بھیج دیا، جس میں انہوں نے آپؐ کو تمام حالات سے باخبر کیا، آپؐ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا کہ مدینہ سے باہر نکل کر اُن کا مقابلہ کیا جائے، یا مدینہ میں ہی رہا جائے، آپؐ کی ذاتی رائے یہ تھی کہ مسلمان مدینہ سے نہ نکلیں، اور یہیں رہیں، اور اگر کفار اس میں داخل ہوں تو مسلمان ان سے محلوں کے راستوں پر نکل کر ان کا مقابلہ کریں اور عورتیں اپنے گھروں کے اوپر سے۔ عبداللہ بن ابی منافق نے بھی اس رائے کی تائید کی، لیکن جو صحابہ غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے، انہوں نے مدینہ سے باہر نکل کر اُن کا مقابلہ کرنے کا مشورہ دیا، اور اس رائے پر اصرار کیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ کر اپنے گھر میں گئے، اور زرہ پہن کر باہر آگئے۔ اس درمیان ان صحابہ کرام کی رائے بدل چکی تھی، اور کہنے لگے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواہ مخواہ نکلنے پر مجبور کردیا ہے، اس لیے انہوں نے کہا: یارسول اللہ ! اگر آپ چاہتے ہیں تو مدینہ ہی میں رہیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک نبی کے لیے جب وہ اپنا زرہ پہن لے مناسب نہیں کہ اُسے اُتار دے، یہاں تک کہ اللہ اُس کے اور اس کے دشمن کے درمیان فیصلہ کردے۔ [2] پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار صحابہ کے ساتھ نکل پڑے اور مدینہ میں رہنے والے مسلمانوں کی امامت کے لیے سیّدنا ابن امّ مکتوم رضی اللہ عنہ کومقرر کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ایک خواب دیکھا کہ ان کی تلوارمیں ایک سوراخ ہے اور دیکھا کہ ایک گائے ذبح کی گئی، اور دیکھا کہ آپؐ نے اپنا ہاتھ ایک زرہ میں ڈالا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار میں سوراخ کی تعبیر یہ کی کہ اُن کے اہلِ بیت کا ایک آدمی قتل کردیا جائے گا، اور گائے کے ذبح کرنے کی تعبیر یہ نکالی کہ ان کے صحابہ کی ایک جماعت قتل ہوجائے گی اور زرہ کی تعبیر شہرِ مدینہ سے کی ۔ [3]
Flag Counter