Maktaba Wahhabi

618 - 704
دے دی ہے۔ [1] واقدی نے ذکر کیا ہے کہ نبطی لوگ بکثرت جاہلیت کے زمانہ سے آٹا اور تیل فروخت کرنے کے لیے مدینہ منورہ آیا کرتے تھے، اُن کے ذریعہ مسلمانوں کو ہر روز ملکِ شام کی خبریں ملتی تھیں۔ انہی کے ذریعہ یہ بات معلوم ہوئی کہ رومی لوگ شام کے علاقہ میں بہت بڑی فوج جمع کر رہے ہیں، اورہرقل نے اپنے لوگوں کو ایک سال کا غلّہ فراہم کر دیا ہے، اور اپنے ساتھ لخم وجذام اور غسّان وعاملہ کو ملا لیا ہے، اور مدینہ کی طرف بڑھنا شروع کر دیا ہے، اور اپنا مقدمۃ الجیش بلقاء تک پہنچا دیا ہے، اور وہاں اپنی فوجی چھاؤنی بنا لی ہے، اِس لیے مسلمان اس دشمن سے بہت ہی خائف تھے۔ [2] رومیوں کے خلاف فوج کشی: مذکورہ بالا حالات اور رومیوں کی فوجی نقل وحرکت کے سبب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہایت ضروری ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں ایک فیصلہ کن قدم اٹھائیں، اور رومیوں پر ان کے علاقہ میں پہنچ کر حملہ کریں قبل اس کے کہ وہ مدینہ پہنچ جائیں، اور ان علاقوں میں اپنا اثر ورسوخ بڑھالیں جو اب اسلام کے زیر نگیں ہیں، حالانکہ مسلمان اُن دنوں مشکل حالات سے گزر رہے تھے، تنگدستی، خشک سالی اور شدید گرمی کا زمانہ تھا، اور طویل سفر کے لیے سامانِ سفر اور سواریاں نہیں تھیں۔ ابن اسحاق لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو رومیوں کے خلاف جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا، جبکہ لوگ شدید تنگدستی، سخت گرمی اور خشک سالی سے دوچار تھے، اور پھلوں کے پکنے کا زمانہ تھا، لوگ چاہتے تھے کہ وہ اپنے پھلدار درختوں کے سایہ تلے پھلوں اور سایہ سے مستفید ہوں، اور فی الحال نہیں چاہتے تھے کہ وہ دور کا سفر کریں۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تو اشارہ وکنایہ میں کچھ بتاتے اور جدھر کا ارادہ ہوتا اس کے سوا کسی دوسری جہت کی بات کرتے، لیکن غزوئہ تبوک کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کر دی، اس لیے کہ راستہ طویل تھا، مدت لمبی مطلوب تھی، اور دشمن کی تعداد کثیر تھی، تاکہ لوگ اچھی طرح تیار ہو کر نکلیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ ہر ممکن تیاری کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کر دیا کہ وہ رومیوں سے جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ [3] مالی امداد کے لیے دعوتِ عام: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حسبِ قدرت واِمکان صدقہ اور مالی امداد جمع کرنے کی رغبتِ عام دلائی، تاکہ عظیم اسلامی فوج جس کی تعداد تیس ہزار تھی، اسے دشمن کے مقابلہ کے لیے تیار کر سکیں۔ مالدار صحابہ کرام نے جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعلان سنا، سب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اللہ کی طرف سے اجر وثواب کے حصول کے لیے صدقہ کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت ہی قلیل مدت میں بڑی رقم اور بہت سارے اموال واَسباب جمع ہوگئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن اموال کے ذریعہ اس عظیم فوج کو پوری طرح تیار کر لیا، فوج کے لیے وسائلِ سفر، اسلحہ اور کھانے
Flag Counter