Maktaba Wahhabi

617 - 704
یہ خبریں قیصرِ روم کو تواتر کے ساتھ پہنچنے لگیں، اور اس نے دیکھا کہ خطرے کی گھنٹی بجنے لگی ہے، اور مسلمان قدم بہ قدم اس کی ملکی حدود کے قریب ہو رہے ہیں، اور شامی حدود جو عربوں کی سر زمین سے بالکل متصل تھیں وہ تو بالخصوص اب اُن کے نشانہ پر ہیں۔ اس لیے قیصر نے ضروری سمجھا کہ اس جدید عسکری طاقت پر بروقت کاری ضرب لگا دی جائے جن کا ابھی کچھ ہی دنوں پہلے کوئی وجود نہیں تھا۔ قیصر جنگی تیاری کرنے لگا، اور روم وعرب کے سپاہیوں پر مشتمل ایک ایسی بڑی فوج تیار کرنے لگا جو دینِ اسلام کی جدید طاقت سے ایک ایسی فیصلہ کن جنگ کرے جس کے بعد وہ طاقت ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے اور دو بارہ رومیوں کی ہیبت عربوں کے دلوں میں بیٹھ جائے۔ ایک اور اہم بات جس نے رومیوں کو اہلِ مدینہ سے جنگ کرنے پر ابھارا وہ اُن کا ایران کی طاقتور فوج پر زبردست غلبہ حاصل کر لینا تھا، جس کا کسی کو سان وگمان بھی نہیں تھا۔ سن 7 ہجری میں رومی فوج نے ہرقل کی قیادت میں ایرانی فوج کے چھکّے چھڑا دیے، رومی ایران کی سر زمین میں داخل ہوگئے، اور اُن سے اپنی وہ صلیب واپس لینے میں کامیاب ہوگئے جس پر ایران والے ماضی میں قابض ہوگئے تھے۔ یہ خبریں مسلمانوں کو مدینہ میں پہنچتی تھیں تو ڈرتے تھے کہ کہیں رومی اچانک آکر اُن پر حملہ نہ کردیں۔ اسی لیے اس زمانہ میں جب کوئی خطرہ کی گھنٹی بجتی یا کوئی ناگہانی واقعہ پیش آ جاتا تو مسلمانوں کے ذہنوں میں فوراً یہ بات آتی کہ شاید غسّانیوں نے اُن پر حملہ کر دیا ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ذہن وفکر اُن کی جرأت و شجاعت اور علو ہمتی کے باوجود غسّانی بادشاہ کے فوجی حملہ کے خوف سے ہروقت مشغول رہتا تھا۔ صحیحین میں سورۃ التحریم کی تفسیر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے ایک انصاری ساتھی تھے، جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے غائب رہتا تو وہ میرے لیے آپؐ کی خبریں لایا کرتے تھے، اور جب وہ غائب ہوتے تو میں اُن کے لیے خبریں لایا کرتا۔ اُس زمانہ میں ہم لوگ ایک غسّانی بادشاہ سے بہت خائف تھے جس کے بارے میں ہمیں خبر ملی تھی کہ وہ مدینہ پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے سینے اس کے حملہ کے خطرہ سے کانپتے رہتے تھے۔ ایک دن میرے ساتھی نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا اور کہنے لگے کھولیے کھولیے۔ میں نے پوچھا: کیا غسّانی آگئے؟ انہوں نے کہا: اس سے بھی بڑی مشکل پیش آگئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ [1] عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کی روایت میں آیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے آپس میں بات کی تھی کہ غسّانی ہم پر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ میرا ساتھی اپنی باری کے دن عشاء کے وقت واپس آیا اور آتے ہی زور سے میرا دروازہ کھٹکھٹایا اور پوچھا: کیا آپ سو رہے ہیں؟ میں گھبرایا ہوا اُس کے پاس نکل کر آیا۔ اس نے کہا: ایک بڑا حادثہ ہوگیا ہے۔ میں نے پوچھا: کیا ہوا، کیا غسّانی آگئے؟ اس نے کہا: نہیں، بلکہ اس سے بھی بڑا حادثہ ہوگیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق
Flag Counter