نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راستہ میں تیز گام چلتے رہے، یہاں تک کہ قیدیوں سے ایک دن پہلے مدینہ پہنچ گئے، اور آپؐ نے ان قیدیوں کو راستہ میں ہی اپنے صحابہ کے درمیان تقسیم کردیا تھا اور ان سے فرمایاتھا کہ قیدیوں کے ساتھ تم لوگ اچھا معاملہ کرنا۔
معرکہ بدر اسلام کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن جنگ کی حیثیت رکھتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اسے ’’ یوم الفرقان‘‘ کا نام دیا ہے، اس لیے کہ اللہ نے اس کے ذریعہ حق او رباطل کے درمیان تفریق کردیا۔ اور عقیدۂ اسلامیہ کو اس جنگ کے ذریعہ بڑی زبردست کامیابیاں حاصل ہوئیں، اور دشمنانِ اسلام جو مدینہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں تھے، خوف زدہ ہوگئے، چنانچہ بہت سے اہلِ مدینہ اس معرکہ کے بعد اسلام لے آئے، اور عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے دیگر منافق ساتھیوں نے ظاہری طور پر اسلام لانے کا اعلان کردیا، اور منافقین کی ایک جمعیت بنالی، جنہوں نے ظاہر میں اسلام کا اعلان کردیا اور باطن میں کفر کو اپنے دلوں میں چھپائے رکھا۔ اور یہود تو اس جنگ کے بعد نہایت ذلیل ورسوا ہوئے، اور اپنے دلوں میں چھپے کینوں کو ظاہر کردیا، اس لیے کہ جنگ کے نتیجے نے انہیں بہت زیادہ ناراض کردیا تھا، جس کی وہ توقع نہیں کرتے تھے، اور ان کے اقوال وافعال سے غیظ وغضب اور بغض وکینہ کی بھڑکتی آگ کے شعلے اٹھنے لگے، اور شعوری اور غیر شعوری طور پر حد سے تجاوز کرنے لگے، اور ان کی انہی خبیث حرکات کا نتیجہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے بنی قینقاع کومدینہ سے جلا وطن کردیا۔ [1]
شہدائے بدر کی فضیلت:
شہدائے بدر کی بہت بڑی فضیلت ہے، اس سلسلے کی بعض صحیح احادیث کا ذیل میں مطالعہ کیجیے:
1- امام بخاری رحمہ اللہ نے معاذ بن رفاعہ الزرقی کے حوالے سے ان کے باپ رفاعہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ (ان کے باپ رفاعہ رضی اللہ عنہ بدری صحابہ میں سے تھے، اور ان کے دادا بیعۃ العقبہ والوں میں سے) جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا: آپ لوگوں کے درمیان مجاہدینِ بدر کا کیا مقام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ مسلمانوں میں افضل اور اچھے ہیں، جبریل علیہ السلام نے کہا: اسی طرح وہ فرشتے بھی فرشتوں میں افضل ہیں جو غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔ [2]
2- امام بخاری رحمہ اللہ نے حُمید سے روایت کی ہے، انہوںنے انس رضی اللہ عنہ سے کہ حارثہ رضی اللہ عنہ معرکۂ بدر میں شہید ہوگئے تو ان کی والدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اورپوچھا: یارسول اللہ! آپ کو معلوم ہے کہ حارثہ کا میرے دل میں کیا مقام تھا، اگر وہ جنت میں ہے تو میں اس اجر کی امید میں صبر کروں گی، اور اگر ایسا نہیں ہے توآپ جانتے ہیں کہ پھر میں کیا کروں گی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تمہیں ہدایت دے، کیا تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے، تم ایک جنت کی بات کرتی ہو، جنتیں تو بہت ساری ہیں، اور حارثہ تو جنت الفردوس میں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ حدیث اگرچہ شہید کے بارے میں ہے، لیکن غزوۂ بدر کی فضیلت میں سبھی شریک ہیں، جو شہید ہوگئے وہ بھی اور جو نہیں شہید ہوئے وہ بھی ۔ [3]
3- امام بخاری ومسلم رحمہما اللہ نے حاطب بن ابو بلتعہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان کیا ہے، جنہوں نے فتحِ مکہ سے پہلے اہلِ مکہ کو خط
|