نہیں، اس احتمال کے سبب کہ دو سو گھرانوں کے افراد کی تعداد سات سوسے زیادہ رہی ہو۔
منافقین کی فتنہ انگیزی:
منافقینِ مدینہ اس دن کے انتظار میں رہتے تھے جب مسلمان شکست کھاجائیں گے، تاکہ اُن کے دل میں لگی حسد کی آگ بجھے، مسلمانوں کو جب بھی فتح ونصرت حاصل ہوتی ان کا بغض وحسد بڑھ جاتا اورہردم اس فکر میں لگے رہتے کہ مسلمانوں کے درمیان کسی فتنہ کی آگ کو بھڑکائیں، ان میں سب سے پیش پیش اللہ کا دشمن عبداللہ بن اُبی بن سلول تھا
1- منافقین کی انہی سازشوں میں سے وہ سازش تھی جو عبداللہ بن اُبی کی زیر نگرانی عمل میں لائی گئی۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں نکلے جس میں مسلمان مختلف تکلیفوں سے دو چار ہوئے [1] تو عبداللہ بن اُبی نے اپنے منافق ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں کے لیے اپنا مال خرچ نہ کرو، تاکہ یہ تمام لوگ اس سے الگ ہوجائیں، نیز اس نے کہا: ہم جب مدینہ واپس پہنچ جائیں گے تو وہاں کا سب سے معزز آدمی سب سے ذلیل انسان کو وہاں سے نکال دے گا۔ میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس بات کی اطلاع دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن اُبی کو بلابھیجا اور اس سے اس بارے میں پوچھا تو وہ قسم کھاگیا کہ اس نے کوئی ایسی بات نہیں کہی ہے، اور دیگر منافقین نے کہا: زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹ کہا ہے، میرے دل پر اس کا بڑا گہرا اثرہوا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میری تصدیق میں سورۃ المنافقون کی وہ آیتیں نازل کیں جن میں اللہ تعالیٰ نے ان کا پردہ فاش کیا۔اور اللہ کے نبی نے مجھے بلاکر وہ آیتیں سنائیں اور فرمایا: اے زید! اللہ نے تمہاری تصدیق کردی ہے۔ [2]
محمد بن اسحاق نے تین سندوں سے اس واقعہ کی تفصیل بیان کی ہے، اور انصار ومہاجرین کے درمیان ایک جھگڑے کا قصہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول ناراض ہوگیا۔ اوراس کے پاس اس کی قوم کی ایک جماعت موجود تھی، انہی میں کم سن نوجوان زید بن ارقم بھی تھے۔ ابن اُبی نے کہا: کیا مہاجرین نے انصار کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا ہے، یہ ہمارے شہر میں آکر ہم سے نفرت کا برتاؤ کرتے ہیں اور ہم سے بڑا بننے کی کوشش کرتے ہیں، اور ہمارے احسانات کو بھول گئے ہیں، اللہ کی قسم! جب ہم مدینہ واپس پہنچ جائیں گے تو وہاں کا سب سے معزز آدمی سب سے ذلیل انسان کو وہاں سے نکال دے گا، پھر وہ اپنی قوم کے لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا: تم لوگوں نے اپنے ساتھ یہی کچھ کیا ہے؟ تم نے ان لوگوں کو اپنے شہر میں پناہ دی، اوراپنے مال وجائداد میں ان کو شریک بنالیا، اللہ کی قسم! اگر تم ان کی مدد کرنا بند کردوگے تویہ سب تمہارے شہر سے نکل کر کہیں اور چلے جائیں گے۔
زید بن ارقم نے یہ بات سُنی اور جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبتادی، یہ واقعہ اس وقت ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمن کی سرکوبی سے فارغ ہوچکے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ موجود تھے، انہوں نے آپ سے عرض
|