پڑھیں۔ سفرِ تبوک سے کچھ ہی قبل کی یہ بات ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی ہم لوگ پابہ رکاب ہیں، ان شاء اللہ میں واپسی کے بعد چل کر اُس میں نماز پڑھوں گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تبوک سے مدینہ واپس آنے لگے، اور مقام ’’ذی اَوان‘‘ میں ٹھہرے، تو آپ کے پاس جبریل علیہ السلام مسجدِ ضِرار کی خبر لے کر آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین کے کفر اور تفریقِ بین المسلمین کی سازش کی اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً مدینہ پہنچنے سے پہلے کچھ صحابہ کرام کو بھیج کر اس مسجد کو مسمار کروا دیا، جیسا کہ علی بن ابی طلحہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اِن آیات کی تفسیر کے ضمن میں روایت کی ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یہ تفصیلات سعید بن جبیر، مجاہد، عروہ بن زبیر، قتادہ اور دیگر بہت سے علماء سے مروی ہیں۔
محمد بن اسحاق بن یسار نے زہری، یزید بن رومان، عبداللہ بن ابی بکر اور عاصم بن عمرو بن قتادہ وغیرہم سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مقامِ ’’ ذی اَوان ‘‘ میں رُکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان سے مسجدِ ضرار کی خبر ملی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت مالک بن مالک بن الدخشم، معن بن عدی یا اُن کے بھائی عامر بن عدی کو بلایا اور کہا کہ تم دونوں ابھی اس مسجد کے پاس پہنچو جس کے بنانے والوں نے ظلم کیا ہے، اور اسے گِرا دو اور جلا دو۔ وہ دونوں صحابی دوڑنے لگے، اور اُن کے ہاتھوں میں کھجور کا ڈنٹھل تھا جس میں انہوں نے آگ لگا رکھی تھی۔ وہاں پہنچتے ہی وہ اس میں داخل ہوگئے، اور اس میں آگ لگا دی اور اسے منہدم کر دیا، اُس وقت منافقین اُس کے اندر ہی تھے، یہ سب لوگ تتر بتر ہوگئے، اور اُن کا پردہ فاش کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرمایا۔ [1]
قصۂ اَصحابِ ثلاثہ:
بلاشبہ غزوئہ تبوک مخلص مسلمانوں اور منافقین کے درمیان بہت بڑی وجہِ امتیاز تھا، جیسا کہ اوپر لکھا گیا، اکثر منافقین تبوک جانے سے کترا گئے، اور جو گئے وہ اس نیت سے کہ وہ اسلامی فوج کی ہمت پست کریں گے اور مسلمانوں کے درمیان فتنہ پھیلائیں گے، اور مسلمانوں کی شکست وہلاکت کی خوشیاں منائیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اسی لیے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جب کسی کے بارے میں اس سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتے کہ فلاں آدمی نہیں آیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: اُسے چھوڑ دو، اگر اُس میں خیر ہوگی تو اللہ اسے تمہارے پاس پہنچا دے گا، ورنہ اللہ نے اس کے وجود سے تم لوگوں کو راحت دے دی ہے۔
یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر سے صرف معذور، کمزور اور عاجز لوگ پیچھے رہے، یا پھر منافقین۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ پہنچے، تو پہلے مسجد میں گئے، وہاں دو رکعت نماز پڑھی، پھر لوگوں سے ملنے کے لیے اندر ہی بیٹھ گئے۔ تو وہ منافقین آئے جو بغیر عذر شرعی محض نفاق کے سبب تبوک نہیں گئے تھے، اور عُذرِ لنگ پیش کرنے اور قسمیں کھانے لگے، ایسے لوگوں کی تعداد اَسّی (80) سے کچھ زیادہ تھی، اللہ کے رسولؐ نے ان کے ظاہر کو قبول کر لیا، اُن سے بیعت کر لی، اور اُن کے
|