لیے مغفرت کی دعا کی اور اُن کے باطن کو اللہ کے حوالے کر دیا۔
کعب بن مالک خزرجی، مُرارہ بن الربیع اوسی اور ہلال بن امیّہ اوسی رضی اللہ عنھم بھی ان لوگوں میں سے تھے جو اس غزوہ سے پیچھے رہ گئے لیکن ان کا غزوہ سے پیچھے رہنا نفاق یا کسی بیماری و عذر کی وجہ سے نہیں تھا کیونکہ یہ تینوں مخلص مومن تھے، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنھما دونوں تو بدری صحابی تھے جب کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیعت عقبہ والوں میں سے تھے۔ ان لوگوں نے کوئی عذر لنگ پیش کرنے کی بجائے اپنی تقصیر کا اعتراف کیا اور سچائی کی راہ اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے اُن کا فیصلہ مؤخر کر دیا اور پچاس دنوں کے بعد اُن کی توبہ قبول کی گئی۔
امام بخاری، امام مسلم اور دیگر محدثین رحمۃ اللہ علیہ نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی زبانی ان تینوں صحابہ کرام کا واقعہ بیان کیا ہے، اور اسے امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اختصار کے ساتھ اپنی کتاب زاد المعاد میں پیش کیا ہے جو مندرجہ ذیل ہے، لکھتے ہیں:
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سلام کیا تو آپؐ کے چہرہ مبارک پر ناراضی بھرا تبسم ظاہر ہوا پھر فرمایا: اِدھر آؤ۔ کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں چلتا ہوا آپؐ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ آپؐ نے پوچھا: تم کیوں پیچھے رہ گئے؟کیا تم نے اپنی سواری خرید نہیں لی تھی؟ میں نے کہا؟ ہاں، اللہ کی قسم! اگر میں اہل ِدنیا میں سے کسی کے پاس بیٹھا ہوتا تو مجھے خوب معلوم ہے کہ میں کس طرح کوئی عذر پیش کرکے اُس کی ناراضی سے بچ نکلتا، مجھے قوتِ گویائی دی گئی ہے، لیکن میں جانتا ہوں کہ اگر آج میں جھوٹ بول کر آپ کو راضی کر لیتا ہوں تو عنقریب ہی اللہ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے گا۔ اور سچ بولوں گا، تو ممکن ہے آپ رنجیدہ ہو جائیں، لیکن امید کرتا ہوں کہ اللہ مجھے معاف کر دے گا۔ اللہ کی قسم! میرے پاس کوئی عذر نہیں تھا، اللہ کی قسم! میں کبھی بھی اتنا قوی اور خوشحال نہیں تھا جتنا اُن دنوں جب آپ سے پیچھے رہ گیا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے سچ بات بتائی ہے، اب اٹھو، انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں فیصلہ کر دے۔ میں اٹھ کر چلا آیا، اور بنی مسلمہ کے لوگ مجھ پر ناراض ہونے لگے اور مجھے بُرا کہنے لگے۔ کہنے لگے: اللہ کی قسم! ہم نہیں جانتے کہ تم نے اس سے پہلے کوئی گناہ کیا ہے، پھر دیگر عذر پیش کرنے والوں کی طرح تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی عذر پیش کیوں نہیں کیا؟
کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: لوگ یونہی مجھے ملامت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے سوچا: واپس جاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتا ہوں کہ میں نے جھوٹ بولا ہے، میں تو معذور تھا۔ لیکن پھر سوچا، ذرا دریافت تو کروں، کیا میرے سوا کسی اور کے ساتھ بھی ایسا معاملہ ہوا ہے، تو مجھے دو آدمیوں کے نام بتائے گئے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ہی طرح کی بات کہی ہے۔ میں نے پوچھا: وہ دونوں کون ہیں؟ لوگوں نے کہا: مرارۃ بن الربیع العامری اور ہلال بن امیّہ الواقفی- یہ دونوں بدری صحابی اور صالحین میں سے تھے-اس لیے میں دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں گیا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہم تینوں سے بات کرنے سے منع فرما دیا، چنانچہ لوگ ہم سے کنارہ کش ہونے لگے، ہمارے لیے اجنبی بن گئے، بلکہ مدینہ کی زمین ہمارے لیے اجنبی بن گئی، ہم نے اسی حال میں پچاس راتیں گزار دیں۔
میرے دونوں ساتھی تو عاجزو درماندہ ہوکر اپنے گھروں میں بیٹھ گئے، لیکن میں اُن دونوں سے زیادہ جوان اور قوتِ برداشت والا تھا۔ میں گھر سے باہر نکلتا تھا، مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھتا تھا، بازاروں میں گھومتا تھا، لیکن کوئی بھی مجھ سے بات نہیں کرتا تھا۔
|