سُراقہ رضی اللہ عنہ جب لوٹے تو ہر ایک کو آپ کی تلاش میں اُس طرف جانے سے یہ کہہ کر روکتے رہے کہ میں اِدھر سے تلاش کرکے آگیا ہوں ، اب کسی کو اُدھر جانے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ کی مشیت دیکھئے کہ جو سُراقہ صبح کے وقت آپ کی تلاش میں اپنی جان کھپا رہے تھے، شام کے وقت آپ کی حفاظت کررہے تھے۔ [1]
واقعۂ امّ معبد رضی اللہ عنھا :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غارِ ثور سے نکل کر سیدھے جنوب میں یمن کی طرف چل پڑے ، پھر مغرب کی سمت ساحل کا رُخ کیا، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے راستے پر پہنچ گئے جس پر لوگ عام طور پر نہیں چلتے تھے، تو بحر احمر کے ساحل سے لگے شمال کا رخ کیا، اور اس طرح آپ نے ایک ایسا راستہ اختیار کیا جس پر کوئی آدمی شاذ ونادر ہی چلتا تھا۔ ابن اسحاق نے اُن مقامات کے نام ذکر کیے ہیں جہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ جاتے ہوئے گزرے تھے، یہاں تک کہ آپ قبا پہنچ گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ اِس سفرِ ہجرت میں امّ معبد بنت کعب خزاعیہ رضی اللہ عنہ کے دو خیموں کے پاس سے گزرے ، یہ ایک پاکدامن ، نیک دل ، عمررسیدہ اور بہادر خاتون تھیں ، جو مردوں کے سامنے آتی تھیں ، اپنے خیمہ کے باہر بیٹھی رہتیں اور وہاں سے گزرنے والوں کو کھلاتی پلاتی تھیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے ان سے اپنی میزبانی کی خواہش ظاہر کی، تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہمارے پاس نہ کھانا ہے اور نہ دودھ دینے والی کوئی اونٹنی یا بکری ، سوائے ایک غیر حاملہ بکری کے، وہ زمانہ قحط سالی کا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر خیمے کے اندر بندھی ایک بکری پر پڑی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے امّ معبد! یہ بکری کیسی ہے؟ انہوں نے کہا: ایک کمزور اور تھکی ہاری بکری ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا وہ دودھ دیتی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم مجھے اسے دوھنے کی اجازت دوگی؟ انہوں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ وہ دودھ دے سکتی ہے تو اسے دوھئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بکری کو منگایا اور اس کے تھن پر اپنا ہاتھ پھیرا، اور بسم اللہ پڑھ کر اس کے حق میں دعا کی ، تو اچانک وہ بکری دوھے جانے کے لیے تیار ہوگئی۔ اور اُس کے تھن میں دودھ اُتر آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا برتن منگایا ، اور اس میں دوہنے لگے ، یہاں تک کہ دودھ کی جھاگ اس بر تن کے اوپر آگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے امّ معبد رضی اللہ عنہ کو پلایا، پھر اپنے اصحاب کو، اور آخرمیں خودپیا۔ سب نے بار بار پیا، یہاں تک کہ اچھی طرح سیراب ہوگئے ، پھر آپؐ نے اس میں دوبارہ دوھا، یہاں تک کہ برتن کو بھردیا، اور اسے امّ معبد رضی اللہ عنہ کے پاس رکھ دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امّ معبد رضی اللہ عنہ سے اسلام پر بیعت لی اور وہاں سے چل پڑے، کچھ ہی دیر کے بعد امّ معبد رضی اللہ عنہ کے شوہرابو معبد اپنی دبلی پتلی بکریوں کو ہانکتے ہوئے آئے۔
ابو معبد نے جب دودھ دیکھا تو انہیں بڑی حیرت ہوئی، کہنے لگے: اے امّ معبد! یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا ہے ، جب کہ خیمے میں موجود بکری چراگاہ سے دور ہے اور نہ حاملہ ہے، اور نہ گھر میں کوئی دودھ دینے والی بکری ہے۔
امّ معبد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ہمارے پاس سے ایک بہت ہی مبارک آدمی کا گزر ہوا ہے جن کی حالت ایسی ایسی تھی،
|