Maktaba Wahhabi

273 - 704
اپنی لونڈی کو حکم دیا کہ وہ میرے گھوڑے کو نکال کر ٹیلہ کے پیچھے لے جائے اور میرا انتظار کرے، میں نے اپنا نیزہ لیا اور گھر کے پائیں دروازے سے نکلا، درآنحالیکہ میں اپنے نیزے کے ذریعہ زمین میں نشان بنا رہا تھا ، اور اس کے بالائی حصہ کو جھکا رکھا تھا، یہاں تک کہ میں اپنے گھوڑے کے پاس پہنچ گیا، اس پر سوار ہوا، اور اسے مہمیزلگادی، وہ مجھے لے کر دوڑنے لگا، جب ان کے قریب پہنچا تو میرے گھوڑے کا پاؤں پھسل گیا، اور میں نیچے گرگیا، میں اُٹھا، اور اپنا ہاتھ تیروں کے تھیلے تک لے گیا اور اس میں سے تیر نکال کر قسمت کا حال معلوم کرنے لگا کہ میں انہیں نقصان پہنچا سکوں گا یا نہیں ، تو میری ناپسندیدہ بات نکلی، لیکن میں نے تیروں کی بات نہیں مانی اور گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ میرا گھوڑا مجھے ان سے قریب کرنے لگا، یہاں تک کہ میں رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی قراء ت کی آواز سننے لگا، اور آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اِدھر اُدھر نہیں دیکھتے تھے، جب کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ بار بار چہار جانب دیکھ رہے تھے۔ اُس وقت میرے گھوڑے کے دونوں اگلے پاؤں زمین میں ٹخنوں تک دھنس گئے، اور میں نیچے گرگیا، اُٹھ کر میں نے گھوڑے کو ڈانٹا تو وہ اُٹھ کھڑا ہوا، اس نے اپنے دونوں پاؤں بڑی مشکل سے نکالے ، جب گھوڑا سیدھا کھڑا ہوگیا تو اس کے پاؤں کی رگڑ سے شہد کی مانند ایک چمکدار غبار اُڑ کر آسمان کی طرف بلند ہورہا تھا، میں نے دوبارہ تیروں کے ذریعہ قسمت کا حال معلوم کرنا چاہا، تو وہی بات نکلی جسے میں ناپسند کرتا تھا۔ تب میں نے ان لوگوں کو امان دینے کے لیے پُکارا، تو وہ کھڑے ہوگئے، میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر ان کے پاس آیا، اوراس وقت میرے دل میں یہ بات یقین کی حد تک بیٹھ گئی تھی کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا دین غالب ہوکر رہے گا۔ میں نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کہا: آپ کی قوم نے آپ کو گرفتار کرنے کے لیے بڑے معاوضہ کا اعلان کیا ہے ، اور دوسری تمام تفصیلات بتائیں، اور آپ اور آپ کے ساتھیوں کو زادِ سفر اور دیگر سامان کی پیش کش کی،تو انہو ں نے مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچائی اور مجھ سے کوئی مطالبہ نہیں کیا، سوائے اس کے کہ میں ان کی بات کسی کو نہ بتاؤں ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کیا کہ مجھے ایک پروانۂ امن لکھ کر دیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ نے وہ بات چمڑے کے ایک ٹکڑے پر لکھ کر مجھے دی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے۔ سیرۃ حلبیہ اور شرح المواہب میں آیا ہے کہ جب سُراقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لوٹنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے سُراقہ! وہ دن تمہارے لیے کیسا ہوگا جب تم کسریٰ کے دونوں کنگن پہنوگے؟۔ سُراقہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کسریٰ بن ہرمز؟ آپ نے فرمایا: ہاں ، اور سُراقہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے ایک تحریر لکھ دینے کی درخواست کی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھ کر دے دیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ انہیں وہ تحریر عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر لکھ کر دی تھی، پھر وہ لوٹ گئے اور لوگوں سے کہتے گئے کہ اِس طرف سے میں ڈھونڈکر آگیا ہوں، اور اس طرح اُنہیں اُدھر جانے سے روک دیا۔ زہری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کی ہے کہ سُراقہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تحریر لے کر آپ کے پاس مقام جعرانہ پر ملے جب آپ طائف سے لوٹ رہے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: یہ دن وفاداری اور بھلائی کا ہے ، قریب آجاؤ، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوگیا، اور اسلام لے آیا۔
Flag Counter