پہنچاتی تھیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کی ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کچھ صحابیات ِ مدینہ کے درمیان لباس تقسیم کیا، اور ایک اچھا لباس باقی رہ گیا تو انہوں نے امّ سلیط رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور کہا: یہ اس کی زیادہ حقدار ہے، یہ احد کے دن ہمارے لیے پانی کے گھڑے ڈھوتی تھی۔ [1]
3- سیّدہ عائشہ بنت ابی بکر امّ المومنین اور امّ سلیم رضی اللہ عنہما اپنی پیٹھ پر پانی کے گھڑے ڈھوتی تھیں، اور مجاہدین کو پلاتی تھیں، پھر لوٹ کر آتیں اور گھڑے بھر کر لے جاتیں، پھر آتیں اور مجاہدین کو پانی پلاتیں۔ [2]
4- ابوحازم کی روایت سے ثابت ہے کہ فاطمۃ الزہرائ رضی اللہ عنہما میدانِ معرکہ میں موجود تھیں، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زخم دھویا اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنی ڈھال میں پانی لے کر اس پر انڈیلا، اورجب سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ پانی سے اور زیادہ خون نکل رہا ہے، تو چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر اسے جلایا اور زخم پر چپکا دیا، تو خون بند ہوگیا۔ [3]
جنگ کے شعلے دھیمے پڑگئے:
اس طرح صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنے میں اپنی جانوں کی بازی لگادی، اور بھگدڑ مچ جانے کے بعد دوبارہ انہوں نے اپنی صفوں کو درست کیا، اور کافروں پر دوبارہ زبردست حملہ کردیا، جس سے مشرکوں کو اپنی شکست کا یقین ہوگیا، اور احد کی گھاٹیوں میں مسلمانوں کا پیچھا کرنے سے رُک گئے۔
مشرک ہمیشہ ہی کینہ پرور اور خبیث فطرت واقع ہوا ہے، اسی لیے مشرکوں نے کئی مسلمان مقتولین کے اعضاء کاٹے، ان کی شکلوں کو بگاڑا، ان کے کان، ناک اور شرمگاہوں کو کاٹا، اور ابو سفیان کی بیوی ہند نے سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ چاک کیا اور ان کا کلیجہ چبایا، لیکن اسے حلق سے نیچے نہیں اُتارسکی، تو اسے منہ سے باہر پھینک دیا، اور کافر عورتوں نے مجاہدین کے کانوں اور ناکوں کے پازیب اور ہار بناکر پہنے۔ [4]
ابن اسحاق نے محمد بن کعب قرظی سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ رضی اللہ عنہ کو ان کا مثلہ کیے جانے کے بعد دیکھا تو فرمایا: اگر میں نے قریش کو پالیا تو ان میں سے تیس آدمی کے مُثلے کروں گا، اور جب صحابۂ رسول نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف کا اندازہ لگایا تو کہنے لگے اگر ہم نے ان کو پالیا تو ان کا ایسا مُثلہ کریں گے کہ کسی عربی نے کسی دوسرے کا نہیں کیا ہوگا، تب اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا:
((وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ۖ)) [النحل: 126سے آخر سورہ تک] … ’’ اور (مسلمانو!) اگر تم سزا دو تو اتنی ہی دو جتنی سزا تمہیں دی گئی تھی۔ ‘‘ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کیا اور مُثلہ کرنے سے منع فرمادیا۔ [5]
|