Maktaba Wahhabi

272 - 704
نہیں کرسکتا، اور میں آپ کی پیروی کرنا چاہتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم آج یہ کام نہیں کرسکتے ہو، لیکن جب تمہیں خبر ملے کہ میری دعوت غالب ہوگئی ہے تو ہمارے پاس آجانا۔ [1] سیّدناابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا ہے : ہم دونوں غار سے نکل کر مدینہ کی طرف صبح اندھیرے منہ نکل پڑے، اور سارا دن اور اس کے بعد ساری رات تیز چلتے رہے ، یہاں تک کہ دوسرے دن دوپہر کا وقت آگیا، تو میں نے اپنی نظر چاروں طرف دوڑائی تاکہ کوئی سایہ دیکھ کر اس کے نیچے آرام کریں۔ میری نظر ایک چٹان پر پڑی، اس کے قریب گیا تو اس کا کچھ سایہ تھا، میں نے اس جگہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے برابر کردیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چمڑے کا بنا ایک فرش بچھا دیا، اور کہا: یا رسول اللہ! آپ یہاں لیٹ جائیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے، پھر میں کچھ الگ ہٹ کر دیکھنے لگا کہ کوئی ہماری تلاش میں تو نہیں آرہا ہے ، اچانک میری نظر بکری کے ایک چرواہے پر پڑی، میں نے پوچھا: اے غلام! تمہارا آقا کون ہے ؟ اس نے ایک قریشی آدمی کا نام بتایا، جسے میں نے پہچان لیا، میں نے اس سے پھر پوچھا: کیا تمہارے پاس دودھ دینے والی بکری ہے؟ اس نے کہا: ہاں ۔ میں نے کہا: کیا تم اسے میرے لیے دوھ سکتے ہو، اس نے کہا: ہاں پھر میں نے اس کو ان بکریوں میں سے ایک بکری کا پاؤں باندھ کر اس کا تھن صاف کرنے کو کہا۔ پھر میں نے اس سے کہا کہ وہ اپنے دونوں ہاتھ بھی صاف کرلے ، اور میرے پاس ایک برتن تھا، جس کے منہ پر کپڑے کا ایک ٹکڑا بندھا تھا، اُس میں اس نے تھوڑا سا دودھ دوہا پھر میں نے پیالے پر پانی بہایا، یہاں تک کہ اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہوگیا، پھر میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نوش فرمائیے، آپ نے پیا یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا ، پھر ہم لوگ وہاں سے چل پڑے اور قریش والے ہمیں ڈھونڈتے رہے، لیکن ان میں سے کوئی ہمیں نہ پاسکا، سوائے سراقہ بن مالک بن جعشم کے، جو اپنے گھوڑے پر سوار تھا، میں نے کہا: یا رسول اللہ! اس آدمی نے ہمیں آلیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ [2] واقعۂ سراقہ بن مالک: سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہمارے پاس کفارِ قریش کے قاصد یہ خبر لے کر آئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والے یا انہیں قیدکرکے لانے والے کو ان دونوں کی دیت کے برابر رقم دی جائے گی، میں اپنی قوم بنی مدلج کے ساتھ ایک مجلس میں بیٹھا تھا تو ان میں سے ایک آدمی نے کہا: اے سراقہ ! میں نے ابھی ساحل کی طرف کچھ لوگوں کو دور سے دیکھا ہے، میرا خیال ہے کہ وہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھی ہیں۔ سراقہ کہتے ہیں: مجھے یقین ہوگیا کہ وہی لوگ ہیں ، لیکن میں نے اس سے کہا: نہیں ، وہ لوگ نہیں ہیں، شاید تم نے فلاں اور فلاں آدمی کو دیکھا ہے جو ابھی ہماری نگاہوں کے سامنے سے گزرے ہیں ، میں وہاں تھوڑی دیر رُکارہا، پھر اپنے گھر گیا اور
Flag Counter