ان سے روایت کی ہے، انہو ں نے کہا: میں ایک جوان لڑکا تھا اور مکہ میں عقبہ بن ابو معیط کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ مشرکین کے ڈر سے بھاگ نکلے، تو میرے پاس پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے لڑکے کیا تمہارے پاس ہمارے پینے کے لیے دودھ ہے ؟ میں نے کہا: میرے پاس یہ بکریاں امانت ہیں ، میں آپ دونوں کو دودھ نہیں پلاسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی بکری کا بچہ ہے جس کو ابھی تک حمل نہیں ٹھہرا ؟ میں نے کہا: ہاں ۔ پھر میں اسے ان کے پاس لے آیا۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسے باندھ دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تھن پکڑ کر دعا کی تو وہ دودھ سے بھر گیا، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک پیالہ نما پتھر لے آئے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا دودھ نکالا، پھر خود پیا اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پلایا، پھر دونوں نے مجھے بھی پلایا، پھر آپ نے تھن سے کہا سُکڑ جا تو وہ سکڑگیا۔ اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا:مجھے اس اچھی بات یعنی قرآن کا کچھ حصہ سکھا دیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایک سکھائے ہوئے لڑکے ہو، چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہانِ مبارک سے ستر سورتیں حاصل کیں جن میں کوئی میرا مدِّمقابل نہیں تھا۔ [1]
ضماد الازدی رضی اللہ عنہ کا اسلام:
سیّدنا ضماد الازدی رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اسلام لانے میں اس وقت سبقت کی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعوت کا کام پوشیدہ طور پر کررہے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں : ضماد رضی اللہ عنہ ازدشنوء ہ کے آدمی تھے، مکہ آئے، جھاڑپھونک کا کام کرتے تھے ، انہوں نے سُفہائے مکہ کو کہتے سُنا کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) پاگل ہے ، انہوں نے سوچا کہ اگر میں اس آدمی کو دیکھ پاتا تو شاید اللہ اسے میرے ذریعہ شفا دیتا، پھر ان کی ملاقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگئی، انہوں نے کہا: اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں اور اللہ جسے چاہتا ہے میرے ہاتھ پر شفا دیتا ہے ، تو کیا تم ایسا چاہوگے؟!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ ، نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ ، مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَـلَا مُضِلَّ لَہٗ ، وَمَنْ یُّضْلِلْ فَـلَا ہَادِیَ لَہٗ ، وَاَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ، اَمَّا بَعْدُ!))
’’سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں (اس لیے) ہم اسی کی تعریفیں کرتے ہیں، اور (اپنے ہر کام میں) اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ (یقین مانو) کہ جسے اللہ راہ دکھائے اُسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ اپنے در سے دُھتکار دے، اس کے لیے کوئی راہبر نہیں ہوسکتا۔ اور میں (تہِ دل سے) گواہی دیتا ہوں کہ معبودِ برحق (صرف) اللہ تعالیٰ ہی ہے، اور وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے (خاص) بندے اور (آخری) رسول ہیں۔حمد وصلوٰۃ کے بعد!‘‘
یہ سن کر ضماد رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کلمات کو آپ میرے لیے دُہرا دیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تین بار ان کے لیے دُہرا دیا، انہوں نے کہا: میں نے کاہنوں ، جادوگروں اور شاعروں کے اقوال سنے ہیں ، میں نے اس طرح کے کلمات کبھی نہیں سنے، اپنا
|