Maktaba Wahhabi

497 - 704
میں تمام احابیش (مختلف الأنواع فوجی) کے ساتھ تم لوگوں سے الگ ہوجاؤں گا۔ قریش نے جب حلیس کی یہ بات سنی تو اُس سے کہا: بیٹھ جاؤ، تم دیہاتی ہو، تمہیں معلوم نہیں کہ سازشیں کس طرح رچی جاتی ہیں۔ جو کچھ تم دیکھ کر آئے ہو وہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں کی سازش ہے۔ تم خاموش بیٹھے رہو تاکہ ہم اپنی مرضی کے مطابق کوئی کارروائی کرسکیں۔ خِراش بن امیہ رضی اللہ عنہ نمائندۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے پاس اپنے مبعوثِ خاص خراش بن امیہ خزاعی رضی اللہ عنہ کو معاہدۂ صلح کی بات مکمل کرنے کے لیے پہلے ہی بھیج دیا تھا تاکہ حالات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے خلاف رُخ نہ اختیار کرلیں، اس کام کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خراش کو ثعلب نامی اونٹنی پر سوار کیا تاکہ وہ زعمائے قریش کو یہ پیغام پہنچائیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف عمرہ کے لیے آئے ہیں۔ خراش رضی اللہ عنہ جب مکہ پہنچے تو عکرمہ بن ابوجہل نے ان کی اونٹنی کا پاؤں کاٹ دیا، اور قریش نے خراش رضی اللہ عنہ کو بھی قتل کرنا چاہا، لیکن احابیش نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا، اور خِراش رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آگئے۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نمائندۂ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم : خِراش جب واپس آگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کومکہ بھیجنا چاہا، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے بارے میں قریش سے ڈرتا ہوں، وہاں بنی عدی کا کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو مجھے اُن سے بچاسکے اور قریش کو میری اُن سے شدید عداوت کی پوری خبر ہے۔ میں آپ کو ایک ایسا آدمی بتاتا ہوں جو قریشیوں کے نزدیک مجھ سے زیادہ معزز ہے، وہ ہیں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا، اورانہیں قریش کے پاس بھیجا اور فرمایا: آپ اُن سے کہئے کہ ہم جنگ کے لیے نہیں آئے ہیں ہم تو صرف عمرہ کی نیت سے آئے ہیں، اور آپ انہیں اسلام کی دعوت دیجیے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ مکہ میں موجود مسلمان مردوں اورعورتوں سے ملیں اور انہیں فتحِ مکہ کی خوشخبری دیں اور بتائیں کہ اللہ عزوجل عنقریب ہی مکہ میں اپنے دین کو غالب کرنے والا ہے تاکہ وہاں کسی مومن مرد یا عورت کو اپنا ایمان چھپانے کی ضرورت باقی نہ رہے۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے، اور مقامِ بلدح میں قریش کے پاس سے گزرے، انہوں نے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے تاکہ تمہیں اللہ اور دینِ اسلام کی طرف بلاؤں، اور تمہیں خبردوں کہ ہم جنگ کے لیے نہیں آئے ہیں، ہم تو عمرہ کی نیت سے آئے ہیں۔ قریش نے کہا: ہم نے تمہاری بات سُن لی، اب تم اپنا کام کرو، اور ابان بن سعید بن العاص نے اُٹھ کر عثمان رضی اللہ عنہ کا استقبال کیا، اپنے گھوڑے کی زین درست کی، اور عثمان رضی اللہ عنہ کو اُس پر سوار کیا، انہیں پناہ دی، اور اپنے پیچھے بیٹھاکر مکہ لے آیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ وہاں ابو سفیان اوردیگر عظمائے قریش سے ملے، اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا۔ انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر تم چاہو تو خانہ کعبہ کا طواف کرلو۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے طواف نہیں کرسکتا۔ عثمان رضی اللہ عنہ اور قریش کے
Flag Counter