درمیان دیرتک گفت وشنید ہوتی رہی، اورعثمان رضی اللہ عنہ اِس دوران میں اُن لوگوں سے رابطہ کرتے رہے جن کے گھروں میں خفیہ طور پر اسلام پھیل چکا تھا، قریش نے کہا کہ عثمان کا یہ رویّہ حدسے تجاوز ہے، اور عثمان رضی اللہ عنہ کو آئندہ ایسا کرنے سے روک دیا، بلکہ انہیں محبوس کرنے کا حکم دے دیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس جانے سے روک دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ قریش نے عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کردیاہے۔ [1]
بیعت رضوان:
اس خبر کے ملتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم اس جگہ سے واپس نہیں جائیں گے جب تک قریش سے نہ نمٹ لیں، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو مشرکینِ مکہ سے جنگ کرنے کے لیے بیعت کی دعوت دی، جس کا نام ’’بیعۃ الرضوان‘‘ پڑگیا، اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں مندرجہ ذیل آیت کریمہ نازل فرمائی:
((لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا)) [الفتح:18]
’’ یقینا اللہ مومنوں سے راضی ہوگیا، جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے، پس وہ جان گیا اس اخلاص کو جو اُن کے دلوں میں تھا، اس لیے اُن پر سکون واطمینان نازل کیا، اور بطور جزا ایک قریبی فتح سے نوازا۔‘‘
صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اِس کی تفصیلات اُن سے مروی احادیث میں بیان فرمائی ہیں۔
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ اور درخت کی ڈالیاں:
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب لوگوں سے بیعت لے رہے تھے تومیں اُس درخت کی ایک ڈالی آپؐ کے سرسے اوپر اُٹھائے ہوئے تھا جس کے سایہ تلے آپؐ بیعت لے رہے تھے، اور ہماری تعداد چودہ سو (1400) تھی، ہم نے آپؐ سے بیعت موت پر نہیں کی، بلکہ اس پر کی کہ ہم بھاگیں گے نہیں۔ [2]
جس نے سب سے پہلے بیعت کی:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الا صابہ‘‘ میں بحوالہ مستدرک حاکم شعبی رحمہ اللہ سے روایت کی ہے کہ سب سے پہلے ابوسنان عبداللہ بن وہب اسدی رضی اللہ عنہ نے بیعت کی، انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اپنا ہاتھ دیجیے تاکہ میں بیعت کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کس بات پر ؟ انہوں نے کہا: اُس بات پر جو میرے دل میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا فتح وشہادت پر؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ تو آپؐ نے اُن سے بیعت لے لی۔ پھر سب لوگ ابوسنان رضی اللہ عنہ کی بیعت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے۔ [3]
|