رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی بات سن کر زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو پانچ سو مجاہدین کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ دحیہ کلبی بھی گئے، زید رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے قبیلۂ جذام پر صبح کے وقت حملہ کر دیا، اور اُن میں سے اکثر کو قتل کر دیا، اور ان کے بہت سے چوپایوں، جانوروں اور عورتوں کو اپنے قبضہ میں کر لیا۔ اُن میں اونٹوں کی تعداد ایک ہزار، بکریوں کی تعداد پانچ ہزار، اور قیدی عورتوں اور بچوں کی تعداد ایک سو تھی۔ اس واقعہ کے بعد رفاعہ جذامی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فوراً واپس گئے، اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا تھا، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو با خبر کیا۔ زید رضی اللہ عنہ کو رفاعہ کے اسلام لانے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اُن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کے ساتھ قبیلۂ جذام کے پاس بھیجنے کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنی تلوار کے ساتھ زید رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، اور انہیں حکم دیا کہ مجاہدین کے ہاتھوں میں ان کا جو بھی مال واسباب ہے، اسے واپس کردیں، علی رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار لے کر زید رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے، اور زید رضی اللہ عنہ نے تلوار پہچان لی تو لوگوں میں فوراً منادی کرائی، سب جمع ہوئے تو زید رضی اللہ عنہ نے کہا: جس کسی کے پاس بھی کوئی قیدی یا مال ہے اسے فوراً واپس کردے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد یہ حکم لے کر آئے ہیں، چنانچہ مجاہدین کے پاس جو کچھ تھا انہوں نے فوراً واپس کردیا۔ [1]
سریّہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (وادی قُریٰ) :
ماہِ رجب سن 6 ہجری میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے شام کی سرزمین وادی قُریٰ میں رہائش پذیر بنی فزارہ پر حملہ کیا، یہ علاقہ مدینہ منورہ سے پندرہ دن کی مسافت پر واقع ہے، اس جنگ میں ورد بن مرداس صحابی کام آگئے، اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مقتولین کے درمیان چھپ کر اپنی جان بچاسکے، اور ایک قول یہ ہے کہ زید رضی اللہ عنہ تجارت کے لیے شام جارہے تھے کہ انہیں بنی فزارہ نے گھیرلیا تھا۔
زید رضی اللہ عنہ جب واپس آئے تو انہوں نے قسم کھالی کہ جب تک بنی فزارہ پر حملہ نہیں کریں گے، اپنا سرنہیں دھوئیں گے، جب ان کا زخم اچھا ہوگیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک فوج کا امیر بناکر بنی فزارہ پر حملہ کے لیے بھیجا، زید رضی اللہ عنہ نے انہیں وادی قُریٰ میں پالیا، ان میں سے اکثر کو قتل کیا، اور امّ قرضہ نامی ایک بوڑھی عورت کو بھی قتل کردیا، اور اس کی بیٹی جاریہ بنت مالک بن حذیفہ بن بدر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے، جو سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلمہ رضی اللہ عنہ سے مانگ کر حزن بن ابووہب کو ہبہ کردیا، جس سے عبدالرحمن بن حزن پیدا ہوئے۔ [2]
سریّۃ الخبط:
ماہِ رجب سن 6 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اس سریہ کو مقامِ سیف البحر کی طرف بھیجا جو مدینہ سے پانچ دن کی مسافت پر واقع تھا، تاکہ قریشیوں کے ایک قافلے پر حملہ کریں، اس فوج کو سفر میں سخت بھوک کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ سلم نامی درخت کے پتے کھانے کی نوبت آئی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس دستہ میں بھیجا اور ہمارا امیر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو بنایا تاکہ ہم قریش کے ایک قافلہ پر حملہ کریں، اور
|