Maktaba Wahhabi

289 - 704
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا مقصود اسی طرف اشارہ کرنا تھا، جب انہو ں نے کہا: جنگِ بُعاث کا دن ایک ایسا دن تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے لیے نصرت وتائید کا سبب بنایا، چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ان دونوں جنگجوقبائل کی حالت دگر گوں ہوچکی تھی، اور ان کے تمام زعماء اور سردار یا تو قتل کیے جاچکے تھے، یا بُری طرح زخمی ہوچکے تھے، اور یہی سبب تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی تو انہوں نے فوراً اسے قبول کرلیا۔ [1] جنگِ بُعاث کے بعد اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دونوں قبیلوں کے کچھ لوگ حج کے لیے مکہ آئے ، اور اللہ کی مشیت کے مطابق ان میں سے چھ کی ملاقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگئی، انہوں نے اسلام کی دعوت قبول کرلی، پھر یثرب واپس آگئے، جب دوسرے سال حج کے لیے آئے تو ان میں سے بارہ (12) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی، اور اسلام کی دعوت قبول کرلی، یہ لوگ پہلے سے مسلمان نہیں ہوئے تھے، انہوں نے عقبہ کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پرپہلی بیعت کی، پھر اپنے شہر کو لوٹ گئے، اس کے بعد فوراً ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس مصعب بن عمیر قرشی رضی اللہ عنہ کو بحیثیت داعی ومعلم بھیجا اور مدینہ میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا، اور ہر گھر میں داخل ہونے لگا، پھر یہ مسلمان تیسرے سال اپنے قبیلوں کے مشرک حاجیوں کے ساتھ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر دوسری بیعت کی (ان دونوں بیعتوں کی تفصیل گزرچکی ہے)، پھر یثرب واپس چلے گئے، اِس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دے دی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے ہجرت کی اجازت مل گئی تو آپ بھی مدینہ چلے گئے ۔ اور اس وقت یثرب کا نام مدینۃ الرسول رکھ دیا گیا ، پھر تو اسلام نے اس سوسائٹی میں ایک گہرا اور کامیاب انقلاب پیدا کیا، جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، اور جس کی مختصر تفصیل مندرجہ ذیل ہے: مدنی سوسائٹی اسلام کے بعد: اب تک کی تفصیلات سے ہمیں معلوم ہوا کہ اسلام سے پہلے یثرب کی سوسائٹی یہوداورقبائلِ اوس وخزرج کے عرب مشرکین سے بنی تھی، پھر یہاں مسلمان مہاجرین مکہ سے آئے ،اور ان کے بعد ہرجگہ سے نئے مسلمانوں کی آمدکا تانتا بندھ گیا، اور نئی اسلامی اسٹیٹ کو ان مہاجرین کی ضرورت بھی تھی تاکہ مدینہ میں ان کی کثرت ہو اور بآسانی مدینہ اور وہاں کے رہنے والے مسلمانوں اور ان کے اہل وعیال کا دفاع ہوسکے، نیز سماجی، اقتصادی اور سیاسی طور پر مسلمان اپنی کثرت کی بنیاد پر مضبو ط ہوسکیں۔ جزیرۂ عرب کے تمام اطراف وجوانب سے نئے مسلمانوں کی آمد نے مدنی سوسائٹی کی بنیاد میں ایک بہت بڑی تبدیلی پیدا کردی۔ بالکل ابتدائے اسلام میں وہاں کے رہنے والے یہودی، انصاری مسلمان اور بعض وہ عرب مشرکین تھے جو ابھی اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے، بلکہ اپنے کفر وشرک پر علانیہ قائم تھے ، لیکن جب اسلامی اسٹیٹ مضبوط ہوئی اور مدنی سوسائٹی میں رہنے والے اکثر لوگوں کا دین دینِ اسلام ہوگیا، اور جنہیں اپنے کفر وشرک پر اصرار تھا ، انہیں یقین ہوگیا کہ اب ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کردیں ، تاکہ اس مسلم سوسائٹی میں زندہ رہ سکیں، اسی لیے
Flag Counter