Maktaba Wahhabi

288 - 704
اور جنگ کی آگ بھڑکاتے رہتے تھے۔ اس لیے جب انہیں معلوم ہوا کہ اسلام اوس وخزرج کے درمیان جنگ کی آگ کو بجھادینا چاہتا ہے تو وہ اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے دلوں میں شدید بغض وعداوت رکھنے لگے۔ ان یہودیوں میں بالغ اور قتال کی صلاحیت رکھنے والوں کی تعداد دوہزار سے کچھ زیادہ تھی، یہ قلعوں کی تعمیر، زراعت وصناعت، مویشی پالنے، پارچہ بافی(کپڑا بننا) اور آلاتِ زراعت وجنگ کی صنعت میں طویل تجربہ رکھتے تھے ، ان کے مزاجوں میں اپنی عبرانی اصل کی عصبیت رچی بسی تھی، اور ان کا اکثر وبیشتر کاروبار سود پر مبنی تھا، اور اس معاملہ میں وہ خاص مہارت رکھتے تھے، اسی لیے وہ ہمیشہ عربوں کے کندھوں پر بھاری سودی قرضوں کا بوجھ لادے رکھتے تھے ، تاکہ تنگئ مال کی وجہ سے آپس میں جنگ نہ بند کردیں۔ اس طرح وہ اپنے یہودی وجود کی ہمیشہ حفاظت میں لگے رہتے تھے اور سودی کاروبار کو ہمیشہ تیز رکھتے تھے۔ اوس وخزرج کے دونوں قبیلے یمن کے قدیم بڑے قبیلے ’’ازد‘‘سے نکل کر یہودیوں کے بعدمدینہ آئے، اور یہودیوں کی چھوڑی چھاڑی زمینوں میں آباد ہونے پر مجبور ہوئے ۔ قبیلہ اوس کے لوگ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے پڑوس میں ،اور قبیلۂ خزرج کے لوگ بنو قینقاع کے پڑوس میں مدینہ کے نچلے علاقے میں رہائش پذیرہوئے۔ اور قبیلہ اَوس کا علاقہ خزرج کے علاقے سے زیادہ زرخیز تھا، اسی وجہ سے ان دونوں قبیلوں کے درمیان ہمیشہ مقابلے اور آپسی اختلافات کی بات پائی گئی۔ اور یہودیوں نے ہمیشہ ہی اوس وخزرج کے درمیان نفاق واختلاف پیدا کرکے جنگ کی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کی ، اور اس کی آخری کڑی جنگِ بُعاث تھی، جو ہجرتِ نبوی سے پانچ سال پہلے ہوئی تھی، جس میں اوس والوں نے خزرج والوں کو شکست دے دی تھی جو اس سے پہلے ہمیشہ اپنی عسکری طاقت میں برتری کے سبب اوس والوں پر غالب آتے رہے تھے۔ اس جنگ کے موقع سے اوس والوں نے بنو نضیر اور بنو قریظہ کے ساتھ جنگی تعاون کا معاہدہ کرلیا تھا ، اسی لیے وہ جنگِ بُعاث میں خزرج والوں پر غالب آگئے، لیکن انہیں خزرج والوں کو یکسر ہلاک کردینے کی خطرناکی کا پورا احساس تھا، اس لیے کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ خود ہی یہودیوں کو یثرب پر قبضہ کرلینے کا موقع فراہم کریں گے، اور اس مثبت سوچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام اوس وخزرج والوں نے عبداللہ بن ابی بن سلول کو اپنا بادشاہ بنا کر اس کی تاج پوشی کرنی چاہی، اس لیے کہ اس کا موقف جنگِ بعاث کے موقع سے نہایت مخلصانہ تھا، اسی کی کوششوں سے بالآخر جنگ بند ہوئی تھی، اور قتل وغارت گری کی آگ سردپڑی تھی۔ اوس وخزرج والے اب تک ان خطرناک جنگوں کی تلخی کو اپنے دل ودماغ میں اچھی طرح محسوس کررہے تھے ، جو سالہا سال سے ان کے درمیان جاری تھی، اور جن میں ان کے بہت سے جو ان کام آگئے تھے، اور جن جنگوں نے ان تمام کی حالت کو بدسے بدتر بنادیا تھا، انہیں تتر بتر کردیا تھا اور انہیں ہلاکت وبربادی کے دہانے پر پہنچادیا تھا، انہی حالات واسباب کے پیش نظر یہ عرب اسلام کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پر بالکل تیار تھے، گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر رحم کرنا چاہا، اور ان کی بگڑی بناکر ایک امتِ راشدہ کی صورت میں دنیا والوں کے سامنے داعیانِ اسلام بناکر پیش کرنا چاہا۔
Flag Counter