یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی: آج تم سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی، جاؤ، تم سب آزاد ہو۔ [1]
بابِ کعبہ کی کنجی اور کعبہ پر اذانِ بلالی:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ سے نکلنے کے بعد مسجد حرام میں بیٹھ گئے۔ آپؐ کے پاس علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کعبہ کی کنجی لیے آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری کے ساتھ ہمیں کعبہ کی دربانی بھی دے دیجیے، آپ پر اللہ کا درود ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: عثمان بن طلحہ کہاں ہے؟ انہیں بلایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے کہا: عثمان! یہ لو کنجی، آج بھلائی اور محبت ووفاداری کا دن ہے۔ [2]
کعبہ کی دربانی کا شرف زمانۂ جاہلیت سے بنی شیبہ کو حاصل تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے انہی کے لیے رہنے دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ کعبہ کے اوپر چڑھ کر اذان دیں۔ اُس وقت ابوسفیان بن حرب، عتّاب بن اُسید، حارث بن ہشام اور دیگر اَشرافِ قریش صحنِ کعبہ میں بیٹھے تھے، عَتّاب نے کہا: اللہ نے اُسید کو عزت بخشی کہ اُس نے یہ اذان نہیں سنی، ورنہ وہ بہت رنجیدہ ہوتے۔ حارث نے کہا: اللہ کی قسم! اگر مجھے یقین ہوجاتا کہ یہ دین حق ہے، تو اسے قبول کر لیتا۔ ابوسفیان نے کہا: میں کچھ بھی نہیں کہنا چاہتا۔ اگر میں کچھ بولوں گا تو یہ کنکریاں میرے بارے میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو بتا دیں گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے قریب آئے اور کہا کہ تم لوگوں نے جو کچھ کہا ہے، مجھے اس کی خبر ہوگئی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سب باتیں اُن کو بتا دیں۔ تو عتّاب اور حارث نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ کی قسم! ہماری باتیں کسی دوسرے نے نہیں سنی تھی تاکہ ہم کہہ سکیں کہ اس نے آپ کو بتا دیا ہے۔ [3]
فتحِ مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز:
امام بخاری رحمہ اللہ وامام مسلم رحمہ اللہ نے اُمّ ہانی رضی اللہ عنھا سے روایت کیاہے ، وہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتحِ مکہ کے دن اُن کے گھر میں داخل ہوئے، غسل فرمایا، اور آٹھ رکعت نماز پڑھی، میں نے کبھی اس سے ہلکی نماز نہیں دیکھی تھی، لیکن رکوع اور سجدہ اچھی طرح کرتے تھے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن چاشت کے وقت آٹھ رکعت نماز پڑھی۔ [4]
قاضی عیاض نے کچھ لوگوں سے نقل کیا ہے کہ وہ نماز فتح کا شکرانہ تھی، چاشت کی نماز نہیں تھی۔ اُمّ ہانی نے تو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا وقت بتایا ہے۔ حافظ ابن القیم نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے اور لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ ہانی رضی اللہ عنہ کے گھر میں چاشت کے وقت آٹھ رکعت نماز پڑھی، جیسا کہ صحیح بخاری میں آیا ہے، جسے بعض لوگوں نے چاشت کی نماز سمجھ لی۔ حالانکہ وہ تو فتحِ مکہ کا شکرانہ تھی۔
|